Friday, March 30, 2012

Boomrang


ایک کہانی مثنوی مولانا روم کی ہے کہ کوئی چور تھا ، تو اس کے اندرکچھ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھنا چاہتا تھا -
اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے ،اور مجھے یہاں سے کوئی مال و مطاع ملے گا ، لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا ، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی ، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا ، ڈھیلا لگا تھا , وہ بمع چوکھٹے کے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا ، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں ، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضی وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا - 
دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے - اس نے کہا ، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا - یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے ، اور کرچیاں کرچیاں ہو گئیں ہیں تو اس کو سزا ملنی چاہئے - 
قاضی وقت نے کہا ، یہ تو واقعی بری بات ہے - اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا ، چنانچہ وہ پیش ہوگیا - اس نے کہا ، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی - اس سے کہا گیا تم نے ایسا قسم کی ناکارہ لکڑی لگائی - اس نے کہا جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے ٹیسٹ کروائیں اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمیدار ہوں - 
حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا ڈائیمنشن کے مطابق نہیں بنایا - 
انھوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا ہے وہ پیش ہوگیا - ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بلکل ٹھیک بنایا ہے یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں - میں یقین سے کہتا ہوں یہ چوکھٹا بلکل ٹھیک ہے - راج معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا یہ ساری کوتاہی اس کی ہے چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہوگیا - 
قاضی وقت نے کہا ، اے نالائق آدمی بہت اعلا درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے ڈائی مینشن اس کی درست ہے تو نے کیوں "موکھا " اس کا ڈھیلا بنایا ، تو نے صحیح طور پر اسے فٹ کیوں نہیں کیا - 
اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے - چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے - اس نے کہا حضور بات یہ ہے ، مجھے اب یاد آیا ، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلا درجے کا لباس پہنے ، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی ، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی ، تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی - جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا میں پوری توجہ نے دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا - 

انھوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ ، عورت کو سب تلاش کرنے لگے ، شہر میں سب جانتے تھے جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہو گی سو عدالت میں پیش کر دیا گیا - 
پوچھا گیا کیا تم یہاں سے اس روز گزری تھیں ؟ کہا ہاں میں گزری تھی - اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا پہنا ، ایسا غرارہ پہنا تھا ، تو کیوں پہنا تھا ؟ 
حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا ڈل کلرز پہنتی ہو - یہ کچھ اچھے نہیں لگتے ، تمہارے رخ زیبا کے اوپر یہ کپڑے سجتے نہیں ہیں - بہت اعلا قسم کے شوخ ، اور بھڑکیلے قسم کے پہنو - 
عدالت نے کہا اس خاوند کو حاضر کیا جائے ، چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے ، عدالت کے سامنے پیش کر دیا - وہ خاوند وہی شخص تھا ، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا- 
اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا - اتنا چکر کاٹ کر آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے - وہ کہاں پر اپنی ہی خواہش ، اپنی ہی آرزو کے درمیان کھڑا تھا - 

از اشفاق احمد زاویہ ١ 

No comments:

Post a Comment