Thursday, May 31, 2012

Uniform


جیسے ہی میں نے بینک کے سامنے گاڑی کھڑی کی ایک آٹھ نو سال کا بچہ ہاتھ میں کپڑا لیے کہیں سے نمودار ہوگیا۔

صاحب گاڑی صاف کردوں !
نہیں مجھے جلدی ہے۔

بس جیسے ہی آپ بینک سے باہر آئیں گے گاڑی صاف ملے گی !

اچھا کردو۔۔۔۔لیکن تم نے تو سکول کی یونیفارم پہنی ہوئی ہے ۔۔۔تمہیں تو اس وقت کلاس میں ہونا چاہییے، یہ تم یہاں سڑک پر کیا کررہے ہو۔

جی میں سکول میں نہیں پڑھتا، یہ یونیفارم تو ایک میڈم نے دی ہے۔ان کا بچہ پہنتا تھا۔اب پرانی ہوگئی ہے نا !

تمہیں میڈم نے اور شرٹ کیوں نہیں دی ؟
نہیں جی ان کے پاس تو دو تین پرانی شرٹیں تھیں۔انہوں نے کہا اس میں سے ایک لے لو باقی دو میں دوسرے بچوں کو دوں گی۔ تو میں نے یونیفارم والی شرٹ لے لی !

لیکن کیا فائدہ ۔۔۔تم تو سکول میں نہیں پڑھتے ، دوسری شرٹ لے لیتے۔

نہیں جی۔۔۔ یہ مجھے اچھی لگتی ہے۔اسے پہن کر لگتا ہے جیسے میں بھی سکول جارہا ہوں ۔

Tuesday, May 29, 2012

طلوع اسلام


دليل صبح روشن ہے ستاروں کي تنک تابي
افق سے آفتاب ابھرا ،گيا دور گراں خوابي
عروق مردئہ مشرق ميں خون زندگي دوڑا
سمجھ سکتے نہيں اس راز کو سينا و فارابي
مسلماں کو مسلماں کر ديا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دريا ہي سے ہے گوہر کي سيرابي
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکماني، ذہن ہندي، نطق اعرابي
اثر کچھ خواب کا غنچوں ميں باقي ہے تو اے بلبل!
''نوا را تلخ تر مي زن چو ذوق نغمہ کم يابي''
تڑپ صحن چمن ميں، آشياں ميں ، شاخساروں ميں
جدا پارے سے ہو سکتي نہيں تقدير سيمابي
وہ چشم پاک بيں کيوں زينت برگستواں ديکھے
نظر آتي ہے جس کو مرد غازي کي جگر تابي
ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا
خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا
کتاب ملت بيضا کي پھر شيرازہ بندي ہے
يہ شاخ ہاشمي کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا
ربود آں ترک شيرازي دل تبريز و کابل را
صبا کرتي ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا
اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتي ہے سحر پيدا
جہاں باني سے ہے دشوار تر کار جہاں بيني
جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتي ہے نظر پيدا
ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے
بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
نوا پيرا ہو اے بلبل کہ ہو تيرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک ميں شاہيں کا جگر پيدا
ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگي کہہ دے
مسلماں سے حديث سوز و ساز زندگي کہہ دے
خدائے لم يزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
يقيں پيدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نيلي فام سے منزل مسلماں کي
ستارے جس کي گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں فاني ، مکيں آني، ازل تيرا، ابد تيرا
خدا کا آخري پيغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تيرا
تري نسبت براہيمي ہے، معمار جہاں تو ہے
تري فطرت اميں ہے ممکنات زندگاني کي
جہاں کے جوہر مضمر کا گويا امتحاں تو ہے
جہان آب و گل سے عالم جاويد کي خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئي وہ ارمغاں تو ہے
يہ نکتہ سرگزشت ملت بيضا سے ہے پيدا
کہ اقوام زمين ايشيا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
ليا جائے گا تجھ سے کام دنيا کي امامت کا
يہي مقصود فطرت ہے، يہي رمز مسلماني
اخوت کي جہاں گيري، محبت کي فراواني
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت ميں گم ہو جا
نہ توراني رہے باقي، نہ ايراني، نہ افغاني
ميان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
ترے بازو ميں ہے پرواز شاہين قہستاني
گمان آباد ہستي ميں يقيں مرد مسلماں کا
بياباں کي شب تاريک ميں قنديل رہباني
مٹايا قيصر و کسري کے استبداد کو جس نے
وہ کيا تھا، زور حيدر، فقر بوذر، صدق سلماني
ہوئے احرار ملت جادہ پيما کس تجمل سے
تماشائي شگاف در سے ہيں صديوں کے زنداني
ثبات زندگي ايمان محکم سے ہے دنيا ميں
کہ الماني سے بھي پائندہ تر نکلا ہے توراني
جب اس انگارئہ خاکي ميں ہوتا ہے يقيں پيدا
تو کر ليتا ہے يہ بال و پر روح الاميں پيدا
غلامي ميں نہ کام آتي ہيں شمشيريں نہ تدبيريں
جو ہو ذوق يقيں پيدا تو کٹ جاتي ہيں زنجيريں
کوئي اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتي ہيں تقديريں
ولايت ، پادشاہي ، علم اشيا کي جہاں گيري
يہ سب کيا ہيں، فقط اک نکتہء ايماں کي تفسيريں
براہيمي نظر پيدا مگر مشکل سے ہوتي ہے
ہوس چھپ چھپ کے سينوں ميں بنا ليتي ہے تصويريں
تميز بندہ و آقا فساد آدميت ہے
حذر اے چيرہ دستاں! سخت ہيں فطرت کي تغريريں
حقيقت ايک ہے ہر شے کي، خاکي ہو کہ نوري ہو
لہو خورشيد کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چيريں
يقيں محکم، عمل پيہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگاني ميں ہيں يہ مردوں کي شمشيريں
چہ بايد مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے
دل گرمے ، نگاہ پاک بينے ، جان بيتابے
عقابي شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق ميں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دريا زير دريا تيرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہيں، کيميا پر ناز تھا جن کو
جبينيں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسير گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پيام زندگي لايا
خبر ديتي تھيں جن کو بجلياں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پير حرم کي کم نگاہي سے
جوانان تتاري کس قدر صاحب نظر نکلے
زميں سے نوريان آسماں پرواز کہتے تھے
يہ خاکي زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
جہاں ميں اہل ايماں صورت خورشيد جيتے ہيں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
يقيں افراد کا سرمايہ تعمير ملت ہے
يہي قوت ہے جو صورت گر تقدير ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے، اپني انکھوں پر عياں ہو جا
خودي کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بياں ہو جا، محبت کي زباں ہو جا
يہ ہندي، وہ خراساني، يہ افغاني، وہ توراني
تو اے شرمندئہ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودئہ رنگ ونسب ہيں بال و پر تيرے
تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
خودي ميں ڈوب جا غافل! يہ سر زندگاني ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصاف زندگي ميں سيرت فولاد پيدا کر
شبستان محبت ميں حرير و پرنياں ہو جا
گزر جا بن کے سيل تند رو کوہ و بياباں سے
گلستاں راہ ميں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کي نہيں ہے انتہا کوئي
نہيں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت ميں نوا کوئي
ابھي تک آدمي صيد زبون شہرياري ہے
قيامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاري ہے
نظر کو خيرہ کرتي ہے چمک تہذيب حاضر کي
يہ صناعي مگر جھوٹے نگوں کي ريزہ کاري ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو
ہوس کے پنچہ خونيں ميں تيغ کارزاري ہے
تدبر کي فسوں کاري سے محکم ہو نہيں سکتا
جہاں ميں جس تمدن کي بنا سرمايہ داري ہے
عمل سے زندگي بنتي ہے جنت بھي، جہنم بھي
يہ خاکي اپني فطرت ميں نہ نوري ہے نہ ناري ہے
خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کي وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاري ہے
پھر اٹھي ايشيا کے دل سے چنگاري محبت کي
زميں جولاں گہ اطلس قبايان تتاري ہے
بيا پيدا خريدارست جان ناتوانے را
''پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را''
بيا ساقي نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
کشيد ابر بہاري خيمہ اندر وادي و صحرا
صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
سرت گردم تو ہم قانون پيشيں سازدہ ساقي
کہ خيل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
کنار از زاہداں برگيروبے باکانہ ساغر کش
پس از مدت ازيں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
بہ مشتاقاں حديث خواجہ بدر و حنين آور
تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد
دگر شاخ خليل از خون ما نم ناک مي گرد
بيازار محبت نقد ما کامل عيار آمد
سر خاک شہيدے برگہاے لالہ مي پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
''بيا تا گل بيفشانيم و مے در ساغر اندازيم
فلک را سقف بشگافيم و طرح ديگر اندازيم''



Friday, May 18, 2012

ماں - جلے ہوئے بسکٹ

جب میں چھوٹا ہوا کرتا تھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امی کو تو بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ جب بھی انہیں موقع اور وقت ملے تو مجھے کوئی نا کوئی اچھی سی چیز بنا کر کھلا دیا کریں۔

اور اس رات کو تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا جب ایک لمبے تھکا دینے والے دن کے اختتام پر اور یقیناً تھکن سے چور میری امی نے شام کے کھانے کیلئے میز پر ہمارے سامنے میری پسندیدہ ڈش انڈوں کی پڈنگ اور ایک ٹرے میں جلے ہوئے بسکٹ رکھے تھے۔ میں نے تو دیکھ ہی لیا تھا مگر مجھے یاد ہے کہ میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی تو محسوس کرے کہ ہمارے سامنے رکھے ہوئے بسکٹ جلے ہوئے ہیں۔ مگر ابو نے تو امی کو بس مسکرا کر دیکھا اور انہیں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو کہا، پھر مجھ سے پوچھا کہ میرا سکول میں آج کا دن کیسا گزرا تھا؟ یہ تو مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے اپنا سکول میں گزرے دن کے بارے میں اُنکو کیا جواب دیا تھا مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں نے دیکھا تھا کہ ابو بسکٹ ایسے کھا رہے تھے کہ جیسے وہ جلے ہوئے ہوں ہی نہیں- بلکہ اس دن تو ابو نے اپنی سابقہ عادت سے بھی دو یا تین بسکٹ زیادہ ہی کھائے تھے۔

کھانے کی میز سے اُٹھ جانے کے بعد تجسس مجھے بے چین کر رہا تھا کہ آخر کار میں نے سُن ہی لیا امی کہہ رہی تھی، مجھے افسوس ہے کہ آج اوون میں بسکٹ جل گئے تھے۔ اور ابو کہہ رہے تھے نہیں تو، اچھے خاصے تو تھے، ویسے بھی مجھے جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں۔ اور جب ابو اپنے کمرے میں جا چکے اور امی میز سے برتن اُٹھا رہی تھیں تو میں چپکے سے ابو کے کمرے میں گیا جہاں ابو پلنگ پر دراز ہو رہے تھے۔ میں نے ابو کو شب بخیر کہا اور پوچھا، ابو کیا آپ کو واقعی جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں؟

ابو نے مجھے بھی اپنے پلنگ پر اپنے ساتھ لٹا لیا اور مجھے کہا؛ آج تمہاری امی نے بہت سے کام کیئے تھے، کپڑے دھونے سے لیکر برتن دھونے، گھر کی صفائی اور کھانا پکانے تک۔ وہ یقیناً اس سارے کام سے بہت زیادہ تھکی ہوئی ہیں اور ویسے بھی اگر انسان تھوڑے سے جلے ہوئے بسکٹ کھا بھی لے تو اُسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

ہماری زندگی بھی بہت سی غیر مثالی باتوں، کاموں، چیزوں اور لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور میں بھی تو لگ بھگ انہی جیسا ہی ایک خطاکار اور غلطیاں کرنے والا انسان ہوں۔ اور تو اور، لوگوں کو اُن کے اچھے دنوں پر مبارکباد تک کہنا بھی بھول جاتا ہوں۔

اس گزرتے وقت سے جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی خطائیں اور غلطیاں قبول کرنے کی عادت کو سیکھنا چاہیئے۔ ہمیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے اختلافات، کمیوں اور کوتاہیوں سمیت قبول کرنا چاہیئے۔ اور یہی بات تعلقات کو مضبوط اور رشتوں کو استوار رکھنے کی چابی ہے۔

میری آپ کیلئے خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں اچھے اور برے کی تمیز تو ضرور پیدا کیجیئے اور اچھائیوں کو پاس رکھتے ہوئے بری اور بدصورت چیزوں کو محو کرتے رہیئے مگر اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے اور یقین کے ساتھ، کیونکہ آخر میں صرف اُسی کی ذات ہی تو ہے جو آپ کے تعلقات پر جلے ہوئے بسکٹوں کو اثرانداز ہونے سے محفوظ رکھے گی۔ اس کہانی کو ہم اپنی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات کیلئے استعمال کر سکتے ہیں چاہے وہ میاں بیوی کے درمیاں تعلقات ہوں یا یاری اور دوستی کے تعلق۔ یاد رکھئیے گا کہ خوشیوں کی چابی ہمیشہ آپکے ہی پاس ہو نا کہ کسی اور کی جیب میں۔
اور ہمیشہ ایک دوسرے کو بسکٹ وغیرہ دیتے لیتے رہیئے خواہ وہ تھوڑے سے جلے ہوئے ہی کیوں ناں ہوں۔
(مآخوذ)

thanks to hajisahb from china