Wednesday, October 20, 2010

والدین

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔

مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔

مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟

نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔

نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔

نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔

ہاتھ انتہائی کُھردرے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ وہ رات اُس نے ماں کے ساتھ باتیں کرتے گُزاری، تھوڑے سے کپڑے دھونے سے اُسکا جسم تھکن سے شل ہو گیا تھا۔ سارا سارا دن بغیر کوئی شکوہ زبان پر لائے کپڑے دھونے والی ماں سے باتیں کرنا آج اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا، دِل تھا کہ کسی طرح بھی باتوں سے بھر نہیں پا رہا تھا۔

دوسرے دِن اُٹھ کر نوجوان دوبارہ اُس کمپنی کے دفتر گیا، مُدیر نے اُسے اپنے کمرے میں ہی بُلا لیا۔ نوجوان کے چہرے سے اگر جگ راتے کی جھلک نُمایاں تھی تو آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کسی ندامت اور افسردگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا، کل گھر جا کر تُم نے کیا کیا تھا؟
نوجوان نے مختصرا کہا کہ کل میں نے گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوئے تھے اور پھر اُس کے باقی بچے ہوئے کپڑے بھی دھوئے تھے۔
مُدیر نے کہا میں تمہارے محسوسات کو پوری سچائی اور دیانتداری کے ساتھ سُننا چاہتا ہوں۔

نوجوان نے کہا: کل مُجھے لفظ قُربانی کے حقیقی معانی معلوم ہوئے۔ اگر میری امی اور اُسکی قُربانیاں ناں ہوتیں تو میں آج اِس تعلیمی مقام پر ہرگز فائز نہ ہوتا۔ دوسرا میں نے وہی کام کر کے اپنے اندر اُس سخت اور کٹھن محنت کی قدر و قیمت کا احساس پیدا کیا جو میری ماں کرتی رہی تھی اور مُجھے حقیقت میں اُسکی محنت اور مشقت کی قدر کا اندازہ ہوا۔ تیسرا مُجھے خاندان کی افادیت اور قدر کا علم ہوا۔
مُدیر نے نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنی کمپنی میں موجود ادارتی منصب کیلئے ایک ایسے شخص کی تلاش تھا جو دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھنے والا ہو، دوسرے کا اِحساس کرنے والا ہو اور صرف مال کا حصول ہی اُسکا مطمعِ نظر نہ ہو۔ نوجوان تمہیں مبارک ہو، میں تمہیں اِس منصب کیلئے منتخب کرتا ہوں۔
اور کہتے ہیں کہ نوجوان نے اُس کمپنی میں بہت محنت، لگن اور جذبے کے ساتھ کام کیا، دوسروں کی محنت کی قدر اور احساس کرتا تھا، سب کو ساتھ لیکر چلنا اور سارے کام مِل جُل کر ایک فریق کی حیثیت سے انجام دینا اُسکا وطیرہ تھا، اور پِھر اُس کمپنی نے بھی بہت ترقی کی۔

...

اِس کہانی سے اخذ کیئے گئے کُچھ نتائج ملاحظہ فرمائیے:
جِس بچے کو مُحبت اور شفقت کے علاوہ اُسکے منہ سے نکلنے والی ہر خواہش کی فوری تعمیل کے ماحول میں پرورش کی جائے وہ بچہ ہر چیز پر حقِ ملکیت محسوس کرتا ہے اور ہمیشہ اپنی خواہشات اور اپنی ذات کو مقدم رکھتا ہے۔
ایسا بچہ اپنے باپ کی محنت اور مشقت سے بے خبر رہتا ہے، جب عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو ہر کسی سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اُسکا ماتحت اور تابع فرمان ہو۔

ایسا بچہ عملی زندگی میں کسی ادارتی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہو جائے تو اپنے ماتحتوں کا دُکھ درد اور تکلیفوں کو سمجھتا ہی نہیں اُلٹا کسی قسم کی ناکامی کی صورت میں اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتا ہے۔
دوسروں کو حقارت اور کمتر سمجھنا تو معمولی بات ہے ایسا بچہ اپنے مفادات اور کامیابیوں کیلئے دوسروں کو راستے سے ہٹانا معمولی بات سمجھتا ہے۔
دیکھ لیجیئے اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اِسی انداز سے کر رہے ہیں تو ہمارے کیا مقاصد ہیں؟ ہم اُنکی حفاظت کر رہے ہیں یا اُن کی بربادی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں؟

ہو سکتا ہے آپکا بچہ ایک بڑے گھر میں رہتا ہو، انواع و اقسام کے اعلٰی کھانے کھاتا ہو، پیانو کی تعلیم حاصل کرتا ہو، کسی پروجیکٹر یا بڑی سکرین والے ٹیلیویژن پر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتا ہو، لیکن اگر کبھی وہ گھر کے لان کی گھاس کاٹنا چاہے تو اُسے اِس کام کا تجربہ تو کرنے دیجیئے۔

اگر وہ کھانا کھا چُکے تو اُسے بہنوں کے ساتھ یا ماں کے ساتھ باورچی خانے میں جا کر اپنی پلیٹ بھی دھونے دیجیئے۔

اِسکا یہ مطلب ہرگز نہیں بنے گا کہ آپکے پاس گھر میں خادمہ رکھنے کی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اِسکا یہ مطلب بنے گا کہ آپ اپنے بچے سے صحیح اُصولوں کے مطابق محبت کرتے ہیں۔

کیونکہ آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے کے اندر اِس بات کا شعور اور احساس پیدا ہو کہ اُس کے باپ نے اُس کیلئے جو دولت چھوڑ کر جانی ہے وہ آسانی سے نہیں کمائی گئی تھی جس طرح مذکورہ بالا کہانی میں نوجوان کی ماں کی محنت و مشقت والی کمائی کا ذکر ہے۔

اِن سب باتوں سے قطع نظر، آپ اپنے بچے کو ایثار اور قُربانی کا مفہوم سمجھانا چاہتے ہیں، آپ اُسے کام کی تکلیف اور مصائب و مشاکل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
آپ اُسے بتانا چاہتے ہیں کہ دوسروں کی محنت و مشقت کی قدر اور احساس کیا جائے تاکہ نتائج سے سب مل کر لطف اُٹھا سکیں۔

Saturday, September 11, 2010

Hadees-e Nabvi S.A.W.W. ZAWAAL k Wqt namaz Mt Parho! "Medical Science" Zawal k Wqt Agr koi Shakhs Apna Matha Zamen pe Lgata He, To Usy BRAIN HMBRIDGE hone ka Khtra hota he q k us wqt zameen se dngerous radiations niklti he Medical Science ne Aj Mana He, HAZOOR S.A.W.W. Ne Ye Bat 1400 pahle bta di ....
[Dated: Sept 9th 2009 Time: 00h:11m A.M]


Above is exact text script of an SMS that I got last year from one of my close friends. At first instance I got shocked !!!

What is this?
Something is terribly wrong with this SMS !, but what?

I can't figure out at first glance!
Let me think again !!!

Oh yes here it is! I got it,
There are no radiations coming form earth!

hmmm, so ?
There is no scientific reference to that research!

and?
that's all!

ok, then what about hadeeth?
Is it complete?
Any reference?

no!

but, there is something still missing !!!
[I took minutes and hours and days, an I am still thinking]

what is it? what is it? what is it? ....
[... and weeks and months]

Now I am getting on track, do a little research!
WHAT ? I don't have time!

You have to do this, Umar!

Clear this thing up!

You can do this!, Yes I know,

...

...

...

Since then I was trying to reach to the bottom of this SMS,
I decided to put some effort and little research.
I am going to put my work here on trial.
I will try to be precise with references.

There are two parts of SMS i.e. Hadith (حدیث) and Medical Science.
And third part on which I focused is "Do we need to spread is this kind SMS or not?"

You will find answer to these three questions in this email.

بسم الله الرحمن الرحيم
b-ismi-llāhi r-raḥmāni r-raḥīm
In the name of Allah Most Gracious , Most Merciful

رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
يَفْقَهُوا قَوْلِي

ارشاد باری تعالی ہے سورت طہ آیہ ١٣٠

فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
ترجمہ : پس صبر کر اس پر جو کہتے ہیں اور سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں اور دن کے اول اور آخر میں تسبیح کر تاکہ تجھے خوشی حاصل ہو
مندرجہ بلا آیہ میں پانچ نمازوں کا واضح حکم ہے اس کے علاوہ مختلف آیہ میں لفظ نماز کے ساتھ خاص طور پر حکم ہے


Bukhari Volume 1, Book 10, Number 573: Narrated Abu-l-Minhal:

My father and I went to Abi Barza Al-Aslami and my father said to him, "Tell us how Allah's Apostle used to offer the compulsory congregational prayers." He said, "He used to pray the Zuhr prayer, which you call the first prayer, as the sun declined at noon, the 'Asr at a time when one of US could go to his family at the farthest place in Medina while the sun was still hot. (The narrator forgot what Abu Barza had said about the Maghrib prayer), and the Prophet preferred to pray the 'Isha' late and disliked to sleep before it or talk after it. And he used to return after finishing the morning prayer at such a time when it was possible for one to recognize the person sitting by his side and he (the Prophet) used to recite 60 to 100 'Ayat' (verses) of the Qur'an in it."
Bukhari Volume 1, Book 10, Number 559: Narrated Ibn 'Umar: Allah's Apostle said, "None of you should try to pray at sunrise or sunset."

Bukhari Volume 1, Book 10, Number 560: Narrated Abu Sa'id Al-Khudri: I heard Allah's Apostle saying, "There is no prayer after the morning prayer till the sun rises, and there is no prayer after the Asr prayer till the sun sets."

Bukhari Volume 1, Book 10, Number 562: Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle forbade the offering of two prayers:
1. after the morning prayer till the sunrises.
2. after the 'Asr prayer till the sun sets.

Malik Book1 Hadith 1.1.7

Yahya related to me from Malik, from his uncle Abu Suhayl from his father that Umar ibn al-Khattab wrote to Abu Musa saying that he should pray dhuhr when the sun had started to decline, asr when the sun was still pure white before any yellowness had entered it maghrib when the sun had set, and to delay isha as long as he did not sleep, and to pray subh when the stars were all visible and like a haze in the sky and to read in it two long suras from the mufassal.

Muslim: Book 4 : Hadith 1811

Uqba b. 'Amir said: There were the times at which Allah's Messenger (may peace be upon him) forbade us to pray, or bury our dead: When the sun begins to rise till it is fully up, when the sun is at its height at midday till it passes over the meridian, and when the sun draws near to setting till it sets.





From above Ahadeth (احادیث) it is very clear that prayer at zawal is allowed, the word "zawal" literally means the time when the sun moves away from its central meridian and not time it is at its meridian as commonly mistaken. Zawal is the time when Zuhr begins and not the forbidden time.

"Istiwa" on the other hand is the time when the sun is at its highest peak at noon when it is impermissible to perform prayer. People mistakenly refer to this as the time of zawal.

Hence, the time for istiwa' or the period in which the sun is at its zenith / meridian and prayer is forbidden is in reality a very momentary period and cannot be counted in minutes or pinpointed accurately by everyone. Hence, the jurists, out of caution, include a few minutes from either side of it to be the forbidden time for prayer. Therefore, prayer must be avoided for approximately 5-10 minutes before noon and 5-10 minutes after noon, noon being the half way point between sunrise and sunset. And time of zawal starts approximately after 25-20 minutes.

As far as science is concern the only radiations coming out of Earth are electromagnetic in nature, Theses are strongest on poles and not dealt with position of sun.

On the other hand we can think about the effects of solar radiation on the Earth system.

At Earth's distance from the Sun, about 1,368 watts of energy in the form of EM radiation from the Sun fall on an area of one square meter (If Earth were a flat, one-sided disk facing the Sun). The surface of a sphere has an area four times as great as the area of a disk of the same radius. So the 1,368 W/m2 is reduced to an average of 342 W/m2 over the entire surface of our spherical planet Earth.

When the Sun is directly overhead, its light (and energy) is concentrated upon the smallest possible surface area of the ground that it can strike (and be absorbed by). But the radiation at top of the atmosphere varies by 3.5% over the year, as the Earth spins around the Sun. This is because the Earth's orbit is not circular but elliptical, with the Sun located in one of the foci of the ellipse. At any given moment, the amount of solar radiation received at a location on the Earth's surface depends on the state of the atmosphere and the location's latitude.

The atmosphere is almost transparent to sunlight, all that is absorbed at the surface results in warming and the emission of IR radiation, this radiation cannot freely escape into space because of absorption in the atmosphere by trace gases. These absorbing gases and their surrounding air warm up, emitting radiation downward, towards the Earth's surface, as well as upward, towards space, The effect is analogous to that of a blanket that traps the body heat preventing it from escaping.

But there is no scientific evidence or proof is available for brain ham-bridge caused by that reflection of solar radiation by earth, at the time when sun is at its meridian.

Do we need to spread out these type of SMS or emails, just spreading uncertainty about religion!

"think about it"

Saturday, May 29, 2010

شکوہ

کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے
تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم
پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم
ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟
ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر
تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا
بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے
تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں
شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي
ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟
قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي
بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے
تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟
کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي
کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي
کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي
کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے
آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے
صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے
پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!
امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں
رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں
يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں
کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب
طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟
بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا
پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا
ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!
تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر
درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي
پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني
اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني
تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟
بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟
آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں
عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي
کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے !
سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے
آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟
وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي
بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے
برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے
مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے
مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے
جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما
مي تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما
بوئے گل لے گئي بيرون چمن راز چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن !
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن
ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پےتاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں
قيد موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي
کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي!
لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں
کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں
اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں
چاک اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسي بانگ درا سے دل ہوں
يعني پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں
عجمي خم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري!

Friday, April 2, 2010

آئینہ


ایک کسان اپنے گاوں میں مکهن بنا کر شہر بیچنے کا کام کرتا تها یہ مکهن ایک ایک کلو کے گول پیڑوں کی صورت میں هوتا تها شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا.

كسان كے جانے بعد دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے. وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها،
دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900 گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا.

كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا:
“ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں، ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں. آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں.