Saturday, May 11, 2013

راستہ



کہتے شوہر کے دل کا راستہ اسکے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کہاوت صرف کسی خاص علاقہ کے لوگوں کے لئے مخصوص ہیے بالکہ دنیا کے ہر ملک میں  ہر شہر میں اور دنیا کی ہر زبان میں ایسی کہاوتیں ، ضرب المثل ، محاورے  رائج ہیں۔
لیکن اس کہاوت کا تعلق کھانے پینے سے زیادہ محبت سے ہے۔ بچہ جب زندگی کے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا رشتہ ازدواج میں بندھتا ہے تو خواہشات کی لمبی فہرست میں بیوی کے بنے ہوئے خوش ذائقہ پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کی امید بھی دل میں لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اس فن سے ناشناس ہونے کی وجہ سے حدیں بڑھ گیئں۔
اگر بازار سے کھانا منگوا لیا جائے اس میں کیا ہرج ہے؟ جگہ جگہ ہوٹل کھلے ہیں یہ کس مرض کی دوا ہیں؟
یہ تو مزدوروں اور مسافروں کے لئیے ہیں، اور جو جن کا کوئی نہیں، ان کے لئے محبت کرنے والا کوئی نہیں۔
متحمل گھرانے ملازمہ یا باورچی رکھ لیتے ہیں تاکہ گھر کے کام کاج کے ساتھ کھانا بھی بنوالیں۔ بازار سے تو قدرے بہتر ہوگا، صفائی بھی ہوٹل سے بہتر ہی ہو گی۔ پر دل کا راستہ، اس کا کیا ہو گا؟
  دل کا راستہ تو آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کواپنے بچوں سے بہت محبت ہوتی ہے۔ اور بچے کو بھی اپنی ماں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کوئی کچھ ہو جائے بچہ ماں کے پاس آئے گا۔ اور آنا بھی چاہیئے۔ ایک بچہ جس کی کل کائنات اسکے ماں باپ ہی تو ہوتے ہیں ہر درد کا مداوا کرنے کو۔
 آج کل دفاتر میں جہاں دوسری سہولیات میسر ہیں وہاں کھانے کی سہولت بھی دی جارہی ہے پھر بھی یہ دیکھا گیا ہے ساٹھ فیصد سے کم افراد مفت سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔مجھ سے اکثر یہ پوچھا گیا ہے تم اتنے اچھے کھانے پر اعتراز کرتے ہو، علاقے کے بہترین ہوٹل سے کھانا آتا ہے، کڑاہی، قوفتے، بریانی، بون لس، چائنیز اور کل ملا کر دس طرح کے پکوان کا مزاہ اڑاتے ہو، پھر بھی بولتے ہو اسمیں یہ مرچیں زیادہ ہیں تیل زیادہ ہے، گرے وی کم ہے، روٹی سخت ہے، سلاد نہیں ٹھیک ، یہ نقص ہے وہ نقص ہے۔ تمہیں کبھی کوئی کھانا پسند بھی آیا ہے؟


".ہاں میری ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا، جس کی خوشبو اور ذائقہ کا کوئی مقابلہ نہیں"


Tuesday, April 9, 2013

ملا دو پیازہ کا مناظرہ


شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے ۔جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا رویت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی ،ملا نے جواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا پھر اُس نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا ۔ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واخح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی بادشاہ نے حسب اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا
بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کی تشریح چاہی تو اُس نے کہا ' جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین ، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے ۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ اللہ ایک ہے ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جواب درست تھا ۔پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے ۔جواب ملا کہ اس کے باوجود وہ اللہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز۔بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم
کرنا پڑی جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے ۔ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں  ۔ اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ' عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا ، ایک جاہل اور گھامڑ تھا چناچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا ، وہ کیسے ' بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا '
پھر ؟
جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
اچھا ؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا ' جی عالم پناہ ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی ، ؟ جی جہاں پناہ ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھا ئی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھاتا ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا ۔




ملاّ دو پیازہ کا اصل نام ابوالحسن بن ابو المحاسن بن ابو المکارم تھا۔ مکّہ معظمہ کے قریب شہر طائف میں (عرب)میں 1540؁ کو پیدا ہوئے۔فطری طور پر ہنسوڑاورظریف تھے۔ ہنسنا ہنسانا عاد ثانیہ تھی۔ اس کے والد اس کی سوتیلی ماں سے لڑ جھگڑ کر گھر سے نکل گئےتو یہ اپنے والد کی تلاش میں نکلےاور قافلا در قافلہ پھرنے لگے۔آخرکار ایک ایرانی قافلے کے ہمراہ ایران پہنچے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نصیر الدین ہمایوں،شیر شاہ سوری سےشکست کھا کر امداد لینے ایران آیا ہوا تھا۔ہمایوں کے سپہ سالار بخش اللہ خان اور ایرانی سپہ سالار اکبر علی کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔ابو الحسن کی خوش مزاجی ، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی نے سپہ سالار بخش اللہ خان کو بے حد متاثر کیا۔اس نے سپہ سالار اکبر علی سے ابوالحسن کو بطور یادگار مانگ لیا۔شو مئی قسمت ابو الحسن کا مربی سپہ سالار بخش اللہ خان کابل کے ایک محاصرےمیں مارا گیا، اور ابو الحسن فوج کے ہمراہ ہندوستان پہنچا۔1556؁میں ماچھی واڑے کی لڑائی کے بعد ابو الحسن دہلی آکر رہنے لگا۔ اس وقت ابو الحسن کی عمر 15،16 برس تھیمگر علم خاصا تھا۔ابو الحسن نے دنیا سے بیزار ہو کر شمس الامراء محمد خان لودھی کی مسجد میں ٹھکانا کر لیا۔علم کے اظہار اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا وصف بھی تھا،لہٰذا سب ابو الحسن کو ملاّ جی ، ملاّ جی کہنے لگے۔رفتہ رفتہ ان کی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی نے شہر بھر میں دھوم مچا دی۔ایک روز ملاّ جی ایک امیر کے ہاں دعوت پر گئے،وہاں ان کو ایک قسم کا پلاؤ بہت پسند آیاجو شخص ان کے برابر میں دسترخوان پر بیٹھا تھا اس سے دریافت کیا کہ اس کھانے کا نام کیا ہے؟جواب ملا اسے دوپیازہ پلاؤ کہتے ہیں،کہ اس میں پکاتے وقت دو بار پیاز ڈالی جاتی ہے۔ ملاّ جی اس نام سے بہت خوش ہوئےاور یاد کر لیا،بلکہ عہد کر لیا کہ جب تک دوپیازہ پلاؤ دسترخوان پر نہ ہوگا وہ کسی کی ضیافت قبول نہ کریں گے۔
ملاّ جی کی یہ معصوم اور البیلی ادا بھی لوگوں کو بہت پسند آئی،پس لوگوں نے ملاّ جی کی دوپیازہ پلاؤ سے یہ رغبت دیکھ کر ان کا نام ہی ملاّ دوپیازہ رکھ دیا اور یہی نام وجۂشہرت بنا، اور اصل نام ابو الحسن بس پردہ رہ گیا۔علامہ ابو الفیضی(ثم فیاضی)اور علامہ ابو الفضل دونو بھائی ہی ملاّ دوپیازہ کے ہم جلیس اور مداح تھے۔علامہ فیضی اور ملاّ دوپیازہ کی دوستی تو یہاں تک بڑھی کہعلامہ فیضی نے عبادت خانہ الہٰی کا انتظام و انصرام ملاّ دوپیازہ کے سپرد کر دیا،اور شہنشاہ اکبر تک ان کو پہنچا دیا۔یو ں قدرت نے انہیں ان کے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا۔ ملاّ دوپیازہ کی ظرافت دربار میں پھلجھڑی چھوڑتی، باہر کا رخ کرتی تو کیا امیر کیا غریب سبھی سے خراج وصول کرتی۔ابو الحسن عرف ملاّ دوپیازہ نے60برس کی عمر پائی۔مغل اعظم احمد نگر کے محاصرے سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ملاّ دوپیازہ بیمار پڑ گئے، اور مہینہ بھر بیماری کاٹ کر 1600؁میں قصبہ ہنڈیا میں انتقال کرگئے، چنانچہ کسی ظریف نے اسی وقت کہا کہ”واہ بھئی! ملاّ دوپیازے۔مر کے بھی ہنڈیا کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ملاّ دوپیازہ اور لالا بیربل کے چٹکلوں سے مہابلی اکبر کا من خوب بہلتا تھا، سو ملا جی کی وفات پر اکبر کئی دن تک غمگین رہا۔

Sunday, March 24, 2013

پاک ٹی ہاؤس

جب سے ہوش سنبھالاہے، پاک ٹی ہاؤس کا نام سنتے چلے آئے ہیں۔ لیکن کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا، ہوتا بھی کیسے عرصہ دراز سے بند پڑا تھا۔ کئی بار خواہش ہوئی کہ کاش وہاں جائیں اور لائیو ادبی محفل دیکھیں، محسوس ہوتا تھا کہ یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی، دوکان کا مالک ٹائیروں کا کاروبار کر نا چاہتا تھا۔ کہاں ادبی محفل اور کہاں ٹائر۔ حال ہی میں اس کو دوبارہ سجا سنوار کرکھول دیا گیا, سن کر خوشی ہوئی.
 اردو محفل کا دعوت نامہ موصول ہوا، 24 مارچ دوپہر 2 بجے، فوراً موبائل پر تین گھنٹےپہلے کا الارم لگایا اور گھر والوں کو تاکید کر دی کہ ہمارا وہاں جانا نہائیت ضروری ہے کہ ہمارے بغیر محفل نامکمل ہو گی اور نہیں چل سکے گی۔

الغرض بروز اتوار مقرر کردہ وقت سے 15 منٹ پہلے ہی پہنچ گئے. اندر گئے محفلیں کو ڈوھنڈا کوئی جانی پہچانی شکل نظرنہ آئی سوچا 15 منٹ ہیں ذرا باہرہی گھوم لیا جائے۔ اتوار کی وجہ سے مارکیٹ بند تھی اور پاک ٹی ہاؤس اور انارکلی کے درمیان سڑک پر اور ملحقہ گلیوں میں، عارضی اسٹالوں  پر کتابوں ڈھیر  لگائے گئے تھے،  یہ تمام استعمال شدہ کتب تھیں، دیکھ کر افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی ہوئی۔ اسٹال عام طور پر اتوار کو ہی لگتے ہیں، کیونکہ بازار اور دوکانیں بند ہوتی ہیں۔ یہاں ہر قسم کی کتابیں مل جائیں گی علمی و ادبی، سائنسی و تکنیکی، اسکول و کالج کی، پرانی انٹیک و نئی، ملکی و غیر ملکی رسائل وغیرہ بہت ورائٹی ملے گی۔ایسی جگہوں پر نرخ فکس نہیں ہوتے، خریدار کی شکل اور حلیہ کی مناسبت سے لگائے جاتے ہیں اور بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جاتا ہے۔


  
15 منٹ یوں ہی گزر گئے، دوبارہ اندر آئے نظر دوڑائی اس بار سوائے ان انگریزوں کے جو کچھ دیر پہلے باہر کتابیں خرید رہے تھے کوئی خاص شخصیت نظر نہ آئی۔ غیر ارادی طور پر محسوس ہوا کہ  ایک کونے سے ہماری نگرانی کی جارہی ہے، وہاں دو باریش جوان شائد اخبار پڑھ رہے تھے یا پھر منہ چھپا رہے تھے۔ ان کی شکلیں کچھ مانوس لگ رہی تھیں، خیال آیا کہ جا کر استفسار کیا جائے اگلے ہی لمحہ اس خیال کو جھٹک دیا کہ کہیں پاک ٹی ہاؤس والے ہمیں باہر نہ کر دیں۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر مزید 15 منٹ تک بٹ صاحب نہ آئے تو میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔



 اسی لمحہ ایک حضرات اندر آتے دکھائی دئیے اور اپنے پیچھے آنے والے حضرت سے کہا، یہ سب تو اندر بیٹھے ہیں۔ یہ یقیناً بٹ صاحب تھے، اور انکے ساتھ بابا جی تھے۔ بٹ صاحب کو دیکھتے ہی چاروں کونوں لوگ ایسے اکٹھے ہوگئے گویا ان کو اٹھا کر باہر پھینکنا چاہتے ہوں۔ نیچے رش زیادہ تھا، اس لئیے طے پایا کہ اوپر چلا جائے، وہاں ٹیبلز جوڑ کر مورچے سنبھالے ہی تھے کہ  پردیسی بھائی بھی آگئے،  ان کے آتے ہی  فوٹو سیشن شروع ہو گیا۔
 

ابھی سانسیں بحال کر کے تعارف ہورہا تھا، بٹ صاحب نے بیرے سے کھانے کی بابت پوچھا اس نے بتایا آج بریانی نہیں ہے، اور بریانی و برگر نہ ہوں گے۔یعنی مرغی کا ناغہ ہے. ہم سب  کے سامنے پردیسی بھائی نے تجویز پیش کی کہ نہاری کھائی جائے،  تقریباً تقریباً سبھی رازی  سوائے قادری صاحب کے،  اس سے پہلے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا، پردیسی بھائی نے دوسری آپشن دی کی یاسر بروسٹ چلتے ہیں، اس بار سب خوشی خوشی اس طرف چل پڑے جہاں یاسر بروسٹ تھا۔


پرانی انار کلی اور نئی انارکلی کے درمیان صرف زیبرا کراسنگ ہے،  نجانے پھر دو نام کیوں؟ خوامخواہ نئی دلی کا گمان ہوتا ہے.  یاسر بروسٹ پرانی انار کلی میں ایک دو منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ ہم نے اوپر والے ہال میں دیواری سائز کی کھڑکی کے قریب ہی بیٹھنے کا ارادہ کیا، اس سے اوپر اے سی والے کمرے بھی تھے لیکن ہم نے کھلے روشن اور ہوا دار جگہ کا انتخاب کیا اور وہیں بیٹھے۔ دیواروں پر واٹر کلر پینٹنگز آویزاں تھیں جو ماحول کو خوبصورت بنا رہیں تھیں۔ کھانے کا آرڈر دیا گیا اور پھر فوٹو سیشن ہوا، بٹ صاحب کھانے کی تصاویر ایسے کھنچ رہے تھے جیسے کھانا کم پڑنے کی صورت میں تصویروں سے گزارا کرنا ہو گا۔
 
 
 کھانا کھا کر ہم لوگ واپس پاک ٹی ہاؤس آئے اور دوبارہ اسی جگہ پر محفل جمائی۔ چائے منگوائی گئی اور ساتھ میں بسکٹ اور کیک بھی۔ چونکہ گفتگو کا موضوع پہلے سے طے شدہ نہیں تھا، اسلیئے متفرقات پر ہی سیر حاصل بحث کی گئی، ان میں متلاشی بھائی کے فونٹ کے کام پر، ہلکی پھلکی سیاسی بحث، اور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ، چٹکلے ، جگتیں وغیرہ میں وقت گزرنے احساس ہی نہ ہوا اور عصر کی آذان سنائی دی، یعنی پانچ بج رہے تھے۔ پردیسی بھائی نے ایک دو مرتبہ توجہ دلائی کہ محفل برخاست ہونی چاہیئے لیکن کسی کا اٹھنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا.۔ پھر ہمیں خود احساس ہوا کہ پردیسی بھائی تھکاوٹ کا شکار ہیں۔



 باہر آ کر الوداعی تقریب شروع ہوئی، جو کہ 15 منٹ جاری رہی، اس تقریب میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے گیے ان میں فوٹو سیشن چوتھا حصّہ، فون نمبرز کا تبادلہ اور چار چار بار گلے ملنا شامل تھے۔ اتنا تو عید میں ہی گلے ملنا ہوتا ہے، یا پھر کوئی عزیز حج کرنے جا رہا ہو۔

پچاس سال پرانی پاک ٹی ہاؤس کی تصویر

پاک ٹی ہاؤس کی بہت پرانی تصویر

Tuesday, March 19, 2013

آؤ میرے مہماں آؤ

میں بلبل ہوں 
مجھے تھوڑی پیاس لگی ہے پانی ملے گا؟ گلا خشک ہو رہا ہے!
جی ضرور ۔۔۔
اور کچھ کھانے کو مل سکتا ہے؟
وہ۔۔۔
ٹھیک ہے بریڈ بھی چلے گی۔

.
.
.
.
.
 بلبل بھیا ذرا سائڈ پر ہوں، میں پانی پینا چاہتی ہوں، پلیز!
.
.
.
.
.
بی چڑیا ! اپنی دوست کو بھی بلا لو، اسے بھی پیاس لگی ہو گی
 .
.
.
.
.
ارے یہ تو سبھی آگئے !
میں تو چلا ۔۔۔
.
.
.
.
.
چلو چلو چلو مینا  آپی آ رہی ہیں۔
.
.
.
بی چڑیو! ٹہر جاؤ، ذرا بات تو سنو ۔۔۔ 


اللہ تیرا شکر
 تو نے ہمارے لئے پینے کو پانی، اور کھانے کو اناج دیا۔
.
.
.
یہ نادان چڑیاں اللہ  انکو کتنا سمجھاؤں۔۔۔
.
.
.
.
.

شکریہ بی مینا ، میرے لیئے بھی کچھ چھوڑا۔۔۔
.
.
.
.
.
نوٹ: آپ سب احباب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے گھر کی دیوار یا چھت پر پانی کے برتن رکھیں، اور وقتاً فوقتاً اس میں پانی بھرتے رہیں تانکہ گزرنے والے پرندے شدید گرمی میں اپنی  پیاس بجھا سکیں،
شکریہ
اللہ آپکو آسانیاں عطا فرمائے۔







Monday, January 21, 2013

smile lollipop


یہ لالی پاپ ہے، جو کہ ١٧٠  گرام وزنی ہے اور ١٢  افراد کے کھانےکے لئے بنایا گیا ہے۔ سائز آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔


اتنے بڑے لالی پاپ پر لیبل بھی اتنا ہی بڑا لگایا گیا، آئیے دیکھتے ہیں اس پر کیا لکھا ہے۔


۔ 0 گرام + 0 گرام + 0 ملی گرام + 0 ملی گرام + 0 گرام + 0 گرام + 138 گرام = 168 گرام
گویا چینی جو لہ 138 گرام ہے نکال دی جائے تو ۔۔۔
۔ 0 گرام + 0 گرام + 0 ملی گرام + 0 ملی گرام + 0 گرام + 0 گرام= 30 گرام

وٹامن اے 0٪
وٹامن سی 0٪
کیلشیم 0٪
ائرن 0٪

اتنا کچھ ڈال دیا اور وہ صفر صفر

١٣٨ گرام چینی اگر ٥٦ فی صد ہے تو باقی ٤٤ فی صد میں کیا ہے ؟
 

لیکن خیال رہے 670 کیلوریز ہیں