Thursday, January 26, 2012

Movie: "Once Upon a Time in Appriva"

آج دفتر میں کام کی مقدار اوسط ہی تھی کہ اچانک مری نظر ایک برقی خط پر پڑی. یہ باس کی جانب سے تھی پڑھنا ضروری تھی. کام کیا تھا ایک فلم بنانی تھی، جی ہاں فلم ! بھلا سوفٹ ویئر انجنیر اور فلم بنائے ؟
کاسٹ، ماڈل، ڈایرکٹر، کیمرہ مین، پروڈیوسر وغیرہ سب طے پا چکا تھا، ہمارے زمہ لائٹ، کیمرہ اور ریکارڈنگ کام لاد دیا گیا. مرتے کیا نہ کرتے اپنا سامان اٹھایا اور مقرر کردہ جگہ پہنچ گئے.

سب لوگ جا چکے تھے ہم صرف تین، باقی آٹھ غائب، خیر کام شروع کیا مشین آن کی لائٹس جلائیں اور سٹیج تیار کیا. ماڈل کو سامنے لایا گیا. کیمرہ ہائی ڈیفنیشن کا تھا لیکن کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا. 
وہ ذرا ماڈل کا منہ تو صاف کرو.
ٹشو سے ماڈل کا منہ صاف کیا، یہ کام بھی ہم نے ہی کرنا تھا، دوبارہ کیمرے کے سامنے لایا گیا، ہاں اب صاف دکھائی دے رہا ہے. 
ارے یہ بیک گرونڈ میں کیا ہے ؟ ہٹاؤ اسے !
ہاں اب کچھ ٹھیک ہے. 
کوئی اور چیز ، ابے پردہ ہی لگا دو...

لیپ ٹوپ تو مسٹ ہے ، باس نے حکم صدر فرما دیا.

اب ہم لیپ ٹاپ کی تلاش میں سرگرداں تھے، اس میں نیٹ نہیں چل رہا، آئ ٹی کی طرف دوڑے...
ویسے ہماری آئی ٹی بہت قابل ہے لیکن نیٹ نہ چلنا تھا نہ چلا 
فیڈورا ففٹین جو ہے ، 
دوسرا لیپ ٹاپ اس پر بھی یہی مسلہ، 
تیسرا منگوایا گیا.
خدا خدا کر کے نیٹ تو چل گیا لیکن آدھ گھنٹہ نکل چکا تھا،

سیٹ پر لائے، سب کچھ تیار تھا. لیپ ٹاپ ، ماڈل دوبارہ ریکارڈنگ شروع کی گئی. 
ٹھہرو ٹھہرو...

اب کیا ہے ؟ لائٹ زادہ ہے ،
کم کرو ،
ہاں ٹھیک ہے ، 
یہ ریفلکشن  کس کی ہے ؟
یہ ٹیوب جلا دو اور انرجی سیور اوف کردو ،
یہ والا نہیں دوسرا ،
اب بہتر ہے. 
ابھی  بھی  کچھ ہے 
کیمرے کی رفلکشن ہے ،
کالا کپڑا لاؤ ، بھائی ہم کہاں سے لائیں، 
آیڈیا ! کالا صفحۂ پرنٹر ، اوہ اچھا ، یوں ہی تو نہیں پرینٹر خراب  ہوتا،
جی نہیں ایسے نہیں ہوتا.
کیمرے کو کالا کاغذ سے ڈھانپا گیا...

یہ کیمرے کے آگے کیا آرہا ہے ،
اچھی طرح سے کاٹو کاغذ کو ، اور ہاں ٹیپ لگاؤ.

ریکارڈنگ کا سلسلہ پھر سے شروع ہوا،
ارے یہ لیپ ٹاپ کس نے بند کر دیا،
بیٹری ختم ! 
لاحول ...

دوڑ کے جاؤ آئی ٹی والے چلے نہ جائیں ...

تین گھنٹے گزر گئے تھے, جنریٹر بند ہونے والا تھا،
جیسی تیسی ریکارڈنگ ہوئی، ختم کی،
باس نے رانی کا جوس منگوایا، پیچ فلیور مزہ آ گیا.

کتنی مووی بن گئی ہے؟
سر ٢ منٹ !!
کیا ؟؟
نہیں سر ٢ منٹ ٥١ سیکنڈ !
تین  گھنٹے میں ٣ منٹ کی مووی بھی نہیں بنی ؟
 سر ٣٠٠ میگا بائٹ کی ہے 
اچھا شیئر کرو 
سر ابھی؟
جی ہاں !
سر یس سر !

اور ہاں، جس جس کی ٹیبل سے جو جو چیز لائے ہو واپس رکھو اور ان  کو میل کرو.

سر اب جائیں ؟ ہم کل چھٹی کرنے کا سوچ رہے تھے

ہاں ٹھیک ہے لیکن کل اس کی ایڈیٹنگ اور مِکسنگ کرنی ہے ، جلدی آنا.

اور ہم سوچتے ہی رہ گئے.

جونہی فلم مکمل ہو گی ہم آپ کو اپ ڈیٹ کر دیں گے ، فی الاحال آپ سکرین شوٹس سے گزارا کریں

Tuesday, January 24, 2012

بازی بازی

بازی گر
مرد ہر بازی دماغ سے کھیلتا ھے کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ھوتی ھے جسے وہ دل سے کھیلتا ھے ۔ اورجس بازی کو وہ دل سے کھیلتا ھے اس میں مات کبھی نہیں کھاتا کیونکہ وہ بازی انا کی بازی ھوتی ھے ۔
عورت ہر بازی دل سے کھیلتی ھے مگر کبھی کبھار کوئی ایک بازی ایسی ھوتی ھے جسے وہ دماغ سے کھیلتی ھے اور اس وقت کم ازکم اس بازی میں کوئی اس کے سامنے کھڑا رہ سکتا ھے نہ اسے چت کر سکتا ھے اور وہ بازی بقا کی بازی ھوتی ھے ۔

Monday, January 23, 2012

ایک دن

ہم بھی وہاں صبح صبح پہنچ گئے، کچھ لوگ آ چکے تھے باقی آ رہے تھے ناشتہ کا زبردست انتظام تھا سفید چنے اور ساتھ میں تلوں والے نان انھیں عرف عام میں کلچے بھی کہا جاتا ہے میز پر نہایت خوبصورتی سے سجاتے گئے تھے کہ بھوک چمک اٹھی بچوں نے بھی ناشتہ کیا اور ہم نے بھی ، بیگم اور بچے دوسرے کمرے میں چلے گئے میں اور باقی حضرات وہیں والد محترم کے پاس بیٹھ گئے چائے کا دور چلا ساتھ میں انہوں نے گفتگو کا آغاز کیا اور ہم سب سے باری باری حال احوال پوچھا

عید کا سا سماں تھا، بچے کھیل کود میں مشغول تھے کچھ شطرنج اور لوڈو کی بازی میں جتے ہوئے تھے تماشبین کو ہار جیت کے فیصلے سے زیادہ اپنی باری کا انتظار تھا. جن کو ان میں دلچسپی نہیں تھی وہ بھجھارتیں بجھوانے اور معمے سلجھانے میں مصروف تھے. خواتین دنیا جہاں کے مسائل کو حل کرنا اپنا اولین فرض سمجھ رہیں تھیں. ایک سے بڑھ کر ایک مشوره دیا جا رہا تھا . باقی لوگ ٹیلی وژن پر مزاحیہ مشاعراہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے

سب لوگ آ چکےتھے ، ان کی تمام اولاد بہوئیں، نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں ، اپنے اپنے کاربار زندگی چھوڑ کر مختلف علاقوں سے اکٹھے ہوئے تھے . ہم  انگیٹھی کے گرد نیم دائرہ کی صورت  بیٹھے تھے حال احوال سے موضوع اب بدل کر ہمارے امور زندگی پر آ گیا تھا . اپنے اپنے مسائل بتاتے جاتے اور وہ باری باری سب کے مسائل کا مناسب حل واضح کرتے جاتے

صدیق ، زین کو کونسے سکول داخل کرا رہے ہو ، ابن سینا  کالج  بہترین ہے. 
ہاں ! عمر نیا گھر ڈھونڈا ؟ دیکھو سکول کے قریب ہونا چاہیے اور لور پورشن دیکھنا.
عثمان فلانگ کیسی جا رہی ہے  آج کل کونسے جہاز پر ہو ؟
عامر یونورسٹی میں داخلے کھلیں تو سعود کا فارم جمع کرانا مت بھولنا!
بلال بیٹا اپنی امی سے پوچھو طارق کو دیر کیوں ہو گئی؟

لنچ کا وقت نکل چکا تھا ، طے  یہ پایا کہ ڈنر جلدی کرلیا جائے شام ہونے کو آئی تھی تین کورس کا ڈنر شروع ہوا !  ابتدا تلی ہوئی مچھلی سے ہوئی . رہو نہایت عمدگی سے تیار کی گئی تھی بڑے کیا بچوں نے بھی شوق پورا کیا. ابھی مچھلی سے فراغ نہیں ہوئے تھے کہ چکن اچاری آگیا ، گنجائشیں کے نہ ہوتے ہوئے بھی اس سے پورا پورا انصاف کیا گیا
آخر میں بڑا سا کیک سویٹ کے طور پر لایا گیا. تھا تو وہ سادہ لیکن فروٹ  کیک،  کشمش سے بھرا ہوا، دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دوبارہ نہیں ملے گا اور اس سے بہترکیک شائد ہی کبھی کھایا ہو

یہ ان کی سالگرہ کا کیک تھا ، آج انکی چوہتر ویں سالگرہ تھی لنچ کم ڈنر سے فارغ ہوےٴ تو پھرسے گفتگو کا سلسلہ  شروع ہوا تو ساتھ میں کشمیری چائے اور کہوہ بھی آگیا اور ہم سب انکی نصیحت آموز گفتگو میں دیر تک ڈوبے رہے...




Tuesday, January 17, 2012

اپنے من کی دنیا آباد کر اس سے دنیا کو شاد کر



دوست کی تعاریف ہمیشہ سے زیرے بحث رہی ہے ،دوست  کبھی ہمسایوں ، کبھی اسکول کے ہم جماعتوں ، کبھی کالج کے تو کبھی دفتری رفیق کی صورت میں ظاہر ہوے. ہر دور میں دوست بھی بدلتے رہے اور دوستی کی تعریف بھی .
دوست آن باشد کہ گیرد دست دوست
بہادر شاہ  ظفر تو یہ کہ گئے لیکن دوست کا ہاتھ پکڑا تو دشمن خوب ٹھکائی کرے گا، اس لیے دشمن کا ہاتھ پکڑ کر رکھنا چاہیے
ان کو میں پچھلے پانچ سال سے جانتا ہوں وہ اکثر وہ آس پاس نظر آے ، سلام دعا ہوتی رہی کبھی کبھار بحث مباحثہ بھی ہوا ، شکر ہے بات باتوں باتوں تک ہی رہی لاتوں تک نہیں پہنچی. کئی کئی گھنٹے ایک دوسرے کی سنتے اور اپنی کہتے رہے لیکن پیچھے نہ وہ ہٹے نہ ہم ، نظریاتی اختلافات کہاں نہیں ہوتے خیر اب وہ بڑی گرمجوشی سے ملتے ہیں.
 چند سال قبل انھوں نے لکھنا شروع کیا ، نام سن کر دل پر بجلی سے گری. لیکن تحریر ہلکی پھلکی  تھیں اچھی لگی دل کو بھی اور دماغ کو بھی ویسے دل اور دماغ کا آپس میں گہرا تعلق ہے . اگر دل پر بوجھ تو دماغ پر بھی بوجھل ، اور اگر دل ہلکا تو دماغ بھی تر و تازہ. لیکن ہمیشہ ایسا نہہیں ہوتا ، کیونکہ کبھی دل دماغ کی بات مان نے سے انکار کر دیتا ہےیا پھر کبھی دماغ آپکو سمجھاتا ہے کہ یہ نہ کرو وہ  نہ کرو. دل اور دماغ کا یہ جھگڑا بعض اوقات سارا دن آپکو الجھن میں مبتلا رکھتا ہے. انکی اکثر تحریر دل کو ہلکا کرتیں ہیں تو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ ایسی بھی ہیں کہ پڑھ کر دماغ ہلکا ہونے لگتا ہے  تو کمپیوٹر بند کرنا پڑتا ہے.
گفتگومیں مناسب انداز سے کرتے ہیں اور حسب ضرورت  جگت بھی لگا دیتے ہیں لیکن دل کے برے نہیں ہیں.سرائکی خوب بولتے ہیں لیکن انگریزی میں مار کھاتے ہیں. جمع تفریک میں ماہر اور شطرنج کی بازی خوب لگاتے ہیں .ٹائیکواندومیں بھی کوئی بلٹ ولٹ ہے اور بوقت ضرورت استعمال کرسکتے ہیں. آجکل کسی کی تلاش میں سرگرداں اور نہایت بےچین ہیں اور مارے مارے پھرتے ہیں ، ستم ظریفی یہ کہ یہ خود بھی نہیں جانتے  اسکو کہاں اور کیونکر ڈھونڈ پائیں .  آپ سب سے گزارش ہے کہ دعا کریں انہیں جن کی تلاش ہے وہ جلد ملے تا کہ زندگی کے ان کھلے راز ان پر فشاں ہوں اور یہ ہم سب کو دیگ کھلا یں
اپنے من کی دنیا آباد کر اس سے دنیا کو شاد کر

Sunday, January 8, 2012

اچھائی اور برائی


“جناب آپ کا کام ہوجائے گا لیکن کچھ خرچہ پانی دینا پڑے گا”۔ پولیس کے ہیڈ محرر نے اجمل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
” کتنا خرچہ ہوگا”؟ اجمل نے جلدی سے پوچھا کہ محرر اپنا فیصلہ تبدیل نہ کرلے۔ وہ صبح سے تھانے کے تین چکر لگا چکا تھا اور ہیڈ محرر مل کر نہیں دے رہا تھا۔ اسے اپنی کار جو چوری ہونے کے بعد مل گئی تھی کے لئےتھانے سے کلیرینس چاہئے تھی۔
“پندرہ سو روپے ہونگے جناب؟” محرر نے ترپ کا پتہ پھینکا کیونکہ وہ اجمل کی آنکھوں کا اضطراب پڑھ چکا تھا۔
“بس بھائی ، ایک ہزار روپے میں معاملہ طے کرلو”۔ اجمل نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ رقم زیادہ ہے لیکن وہ اس ذہنی اذیت سے چھٹکارا کرنا چاہتا تھا۔
محرر کی باچھیں کھل اٹھیں اور وہ کلئرینس دینے کے لئے تیار ہوگیا۔
“جناب کیا کریں ، تنخواہ میں گذارا نہیں ہوتا ، اگر آپ لوگوں سے خرچہ پانی نہ لیں تو گذارا نہیں ہوگا”۔ محرر اپنی غربت کا رونا روتے ہوئے بولا ۔
اجمل یہ سوچنے لگا کہ برائی کبھی بھی اچھائی کے برابر نہیں آسکتی۔ ہر برائی کی کوئی نہ کوئی توجیہہ بیان کی جاتی ہے تاکہ اس کا جواز تلاش کیا جاسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے سے قبل ہی اچھائی اور برائی کا شعور اس کی فطرت میں پیوست کردیا۔ یہ خیر و شر اس مضبوطی سے انسان کے وجود سے چمٹا ہوا ہے کہ کوئی انسان اسے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ چنانچہ جب بھی انسان کوئی برائی کرتا ہے تو وہ اس کی توجیہہ پیش کرتا ہے تاکہ اس برائی کواچھائی کے طور پر پیش کیا جاسکے یا کم از کم اس شر سے پیدا ہونے والے ضمیر کے بوجھ کو کم کیا جاسکے۔
یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کی ہر برائی اپنی ذات میں تنہا ہو کر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی بلکہ یہ جھوٹے بہانے کا لبادہ اوڑھ کر نمو پاتی ہے۔چنانچہ عریانیت کو جدت پسندی کی آڑ میں میڈیا پر فروغ دیا جاتاہے، رشوت ستانی کو محدود آمدنی کی اوٹ میں پروان چڑھایا جاتا ہے، چوری و ڈکیتی پر غربت کا بہانہ تراشا جاتا، جنسی بے راہ روی کو سچی محبت گردانا جاتا اور جھوٹ پر مبنی فروخت کو مارکیٹنگ قرا دیا جاتا ہے۔
انسان جانتا ہے کہ یہ سب بہانے جھوٹے ہیں اور اسکی بنا پر وہ کسی دوسرے شخص کو اپنے خلاف یہ غلط اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر کوئی ڈاکو غربت کی آڑ میں اس کے گھر ڈاکہ ڈالے ، یا مارکیٹنگ کی آڑ میں اسے غلط سلط اشیاء فروخت کرے تو یہی انسان اس ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن جائے گا۔
آج کا انسان ان جھوٹے بہانوں کی آڑ میں بے شمار غلط کام کرہا ہے اور خود کو چھوٹ دے رہا ہے لیکن اس کا ضمیر گواہ ہے کہ وہ ظلم کررہا ہے۔ ایک دن آنے والا ہے جب یہی انسان خدا کے سامنے کھڑا ہوگا اور اس وقت اسکی زبان اور اعضاء خود اس کے خلاف گواہی دے کر تمام بہانوں کو ہوا کردیں گے۔
مصنف: پروفیسر محمد عقیل