Tuesday, April 9, 2013

ملا دو پیازہ کا مناظرہ


شہنشاہ اکبر کے دور میں ایک ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ کا مشہور تاریخی مناظرہ منسوب کیا جاتا ھے ۔جس میں شرکا کو زبان کی بجائے صرف اشاروں سے کام لینا تھا رویت کے مطابق جب ایرانی عالم اور ملا دو پیازہ آمنے سامنے بیٹھ گئے تو ایرانی عالم نے اپنی انگشت شہادت بلند کی ،ملا نے جواب میں اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ایرانی کے چہرے کے سامنے لہرائی ایرانی نے اثبات میں سر ہلایا ۔اُس کے بعد اُس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر ملا کے سامنے کیا جواب میں ملا نے داہنا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند کیا اور ایرانی کے سامنے مکّے کی طرح بلند کیا ایرانی نے ستائش کے انداز میں سر ہلایا پھر اُس نے اپنے آدمی کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اپنی جیب سے انڈا نکال کر ملا کے سامنے رکھ دیا ۔ملا نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اپنے آدمی کے کان میں سرگوشی کی وہ ذرا سی دیر میں ایک پیاز لے آیا جسے ملا نے ایرانی کے رکھے ہوئے انڈے کے ساتھ رکھ دیا ایرانی نے بے ساختہ کھڑے ہو کر ملا کو گلے لگا لیا اور واخح الفاظ میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ملا کی علمی قابلیت اور حاضر دماغی کی زبردست تعریف کی بادشاہ نے حسب اعلان اپنے گلے سے بیش قیمت موتیوں کی مالا اتار کر ملا کے گلے میں ڈال دی اور خلعت و زر نقد بھی عطا کیا ملا فتحیاب اور کامران دربار سے رخصت ہو گیا
بعد میں شہنشاہ نے ایرانی عالم سے سوال و جواب کی تشریح چاہی تو اُس نے کہا ' جہاں پناہ آپ کا عالم بے حد ذہین ، غضب کا حاضر دماغ اور علم و فن کا استاد ہے ۔ میں نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ دیا کہ اللہ ایک ہے ملا نے جواب میں دو انگلیاں دکھا کر واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جواب درست تھا ۔پھر میں نے ہاتھ سے اشارہ دیا کہ قادر مطلق کی کائنات ہتھیلی کی طرح وسیع اور پھیلی ہوئی ہے ۔جواب ملا کہ اس کے باوجود وہ اللہ کریم کے مکمل قبضہ قدرت میں ہیں اس طرح جیسے مٹھی میں بند کوئی چیز۔بڑی معقول تشریح تھی چنانچہ مجھے تسلیم
کرنا پڑی جہاں پناہ تیسرا مسئلہ میں نے انڈا دکھا کر پیش کیا کہ زمین شکل و صورت کے اعتبار سے انڈے کی طرح گول ہے ۔ملا نے پیاز دکھا کر تصحیح فرمائی کہ سات آسمان اور زمین پیاز کی طرح تہ بہ تہ لپٹے ہوئے ہیں تینوں جوابات مُسکت اور از حد عالمانہ تھے چنانچہ مجھے ملا کی علمیت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں  ۔ اگلے روز بادشاہ نے ملا دو پیازہ سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا ' عالم پناہ وہ عالم کہاں کا تھا ، ایک جاہل اور گھامڑ تھا چناچہ معیار کم کرکے اُس کی سطح پر آکر جواب دینا پڑا ، وہ کیسے ' بادشاہ نے تعجب سے دریافت کیا حضور اُس نے بیٹھتے ہی اپنی انگلی میری آنکھ کی طرف بڑھائی اور دھمکی دی کہ میں تیری آنکھ پھوڑ دونگا '
پھر ؟
جہاں پناہ میں نے جواب میں اشارہ دیا کہ میں تیری دونوں آنکھیں پھوڑ دونگا اِس پر وہ اور زیادہ بد تمیزی پر اُتر آیا اور اشارہ دیا کہ تھپڑ ماروں گا ۔
اچھا ؟ بادشاہ نے سمجھتے ہوئے کہا ' جی عالم پناہ ، میں نے جواب دیا کہ ایسا گھونسہ ماروں گا کہ بتیسی باہر نکل آئے گی پھر جہاں پناہ ، وہ مجھے انڈا دکھانے لگا کہ میں یہ کھاتا ہوں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہارا بھرکس نکال دوں گا ۔ واقعی ، ؟ جی جہاں پناہ ، لیکن بندے نے جواب میں پیاز دکھا ئی کہ یہ انڈے میں ملا کر کھاتا ہوں جس سے طاقت دس گنا ہو جاتی ہے اس لیے جان نکال دوں گا بس عالی جاہ ، پھر حضور کے اقبال کی بدولت وہ بھاگ نکلا ۔




ملاّ دو پیازہ کا اصل نام ابوالحسن بن ابو المحاسن بن ابو المکارم تھا۔ مکّہ معظمہ کے قریب شہر طائف میں (عرب)میں 1540؁ کو پیدا ہوئے۔فطری طور پر ہنسوڑاورظریف تھے۔ ہنسنا ہنسانا عاد ثانیہ تھی۔ اس کے والد اس کی سوتیلی ماں سے لڑ جھگڑ کر گھر سے نکل گئےتو یہ اپنے والد کی تلاش میں نکلےاور قافلا در قافلہ پھرنے لگے۔آخرکار ایک ایرانی قافلے کے ہمراہ ایران پہنچے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نصیر الدین ہمایوں،شیر شاہ سوری سےشکست کھا کر امداد لینے ایران آیا ہوا تھا۔ہمایوں کے سپہ سالار بخش اللہ خان اور ایرانی سپہ سالار اکبر علی کی آپس میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔ابو الحسن کی خوش مزاجی ، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی نے سپہ سالار بخش اللہ خان کو بے حد متاثر کیا۔اس نے سپہ سالار اکبر علی سے ابوالحسن کو بطور یادگار مانگ لیا۔شو مئی قسمت ابو الحسن کا مربی سپہ سالار بخش اللہ خان کابل کے ایک محاصرےمیں مارا گیا، اور ابو الحسن فوج کے ہمراہ ہندوستان پہنچا۔1556؁میں ماچھی واڑے کی لڑائی کے بعد ابو الحسن دہلی آکر رہنے لگا۔ اس وقت ابو الحسن کی عمر 15،16 برس تھیمگر علم خاصا تھا۔ابو الحسن نے دنیا سے بیزار ہو کر شمس الامراء محمد خان لودھی کی مسجد میں ٹھکانا کر لیا۔علم کے اظہار اور خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا وصف بھی تھا،لہٰذا سب ابو الحسن کو ملاّ جی ، ملاّ جی کہنے لگے۔رفتہ رفتہ ان کی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی نے شہر بھر میں دھوم مچا دی۔ایک روز ملاّ جی ایک امیر کے ہاں دعوت پر گئے،وہاں ان کو ایک قسم کا پلاؤ بہت پسند آیاجو شخص ان کے برابر میں دسترخوان پر بیٹھا تھا اس سے دریافت کیا کہ اس کھانے کا نام کیا ہے؟جواب ملا اسے دوپیازہ پلاؤ کہتے ہیں،کہ اس میں پکاتے وقت دو بار پیاز ڈالی جاتی ہے۔ ملاّ جی اس نام سے بہت خوش ہوئےاور یاد کر لیا،بلکہ عہد کر لیا کہ جب تک دوپیازہ پلاؤ دسترخوان پر نہ ہوگا وہ کسی کی ضیافت قبول نہ کریں گے۔
ملاّ جی کی یہ معصوم اور البیلی ادا بھی لوگوں کو بہت پسند آئی،پس لوگوں نے ملاّ جی کی دوپیازہ پلاؤ سے یہ رغبت دیکھ کر ان کا نام ہی ملاّ دوپیازہ رکھ دیا اور یہی نام وجۂشہرت بنا، اور اصل نام ابو الحسن بس پردہ رہ گیا۔علامہ ابو الفیضی(ثم فیاضی)اور علامہ ابو الفضل دونو بھائی ہی ملاّ دوپیازہ کے ہم جلیس اور مداح تھے۔علامہ فیضی اور ملاّ دوپیازہ کی دوستی تو یہاں تک بڑھی کہعلامہ فیضی نے عبادت خانہ الہٰی کا انتظام و انصرام ملاّ دوپیازہ کے سپرد کر دیا،اور شہنشاہ اکبر تک ان کو پہنچا دیا۔یو ں قدرت نے انہیں ان کے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا۔ ملاّ دوپیازہ کی ظرافت دربار میں پھلجھڑی چھوڑتی، باہر کا رخ کرتی تو کیا امیر کیا غریب سبھی سے خراج وصول کرتی۔ابو الحسن عرف ملاّ دوپیازہ نے60برس کی عمر پائی۔مغل اعظم احمد نگر کے محاصرے سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ملاّ دوپیازہ بیمار پڑ گئے، اور مہینہ بھر بیماری کاٹ کر 1600؁میں قصبہ ہنڈیا میں انتقال کرگئے، چنانچہ کسی ظریف نے اسی وقت کہا کہ”واہ بھئی! ملاّ دوپیازے۔مر کے بھی ہنڈیا کا پیچھا نہ چھوڑا۔ ملاّ دوپیازہ اور لالا بیربل کے چٹکلوں سے مہابلی اکبر کا من خوب بہلتا تھا، سو ملا جی کی وفات پر اکبر کئی دن تک غمگین رہا۔