Thursday, November 5, 2009

تو جھکا جب غير کے آگے ، نہ من تيرا نہ تن



پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن



پھول ہيں صحرا ميں يا پرياں قطار اندر قطار
اودے اودے ، نيلے نيلے ، پيلے پيلے پيرہن

برگ گل پر رکھ گئي شبنم کا موتي باد صبح
اور چمکاتي ہے اس موتي کو سورج کي کرن

حسن بے پروا کو اپني بے نقابي کے ليے
ہوں اگر شہروں سے بن پيارے تو شہر اچھے کہ بن

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سراغ زندگي
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن

من کي دنيا ! من کي دنيا سوز و مستي ، جذب و شوق
تن کي دنيا! تن کي دنيا سود و سودا ، مکروفن

من کي دولت ہاتھ آتي ہے تو پھر جاتي نہيں
تن کي دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

من کي دنيا ميں نہ پايا ميں نے افرنگي کا راج
من کي دنيا ميں نہ ديکھے ميں نے شيخ و برہمن

پاني پاني کر گئي مجھ کو قلندر کي يہ بات
تو جھکا جب غير کے آگے ، نہ من تيرا نہ تن

Saturday, October 24, 2009

راهب الماضين أفلاط الحكيم


راهب الماضين أفلاط الحكيم
من فريق الضأن في الدهر القديم

طرفه في ظلمة المعقول ضل
في حزون الكون قد أعيا وكل

فكره في غير محسوس فتن
صد عن كف وعين وأذن

قال في الموت بدا سر الحياه
في خمود الشمع يزداد سناه

حكمه في فكرنا جد عظيم
يمحق الدنيا له جام منيم

هو شاة في لباس الآدمي
وهو في الصوفي ذو بأس قوي

عالم الأشياء سماه الهراء
وعلت أفكاره فوق السماء

فعله تحليل أجزاء الحياه
وجفاف النبع من ماء الحياه

زعم الخسران ربحا فكره
ودعا الكون فناء سحره

فكره يغفى ورؤيا يخلق
عينه تبصر آلا يبرق

حرم المسكين حب العمل
فقفا معدومه لا يأتلى

منكرا في الكون مالا يفقد
خالقا في الكون ما لا يشهد

عالم الإمكان للحي وطن
عالم الأعيان للميت حسن

ظبيه من خفة لا يجفل
غير خطار لديه الحجل

لم يلألئ عنده قطر الندى
طيره ما فيه صوت قد شدا

حبة في أرضه تأبى النماء
وفراش عنده يقلي الضياء

في وغى العالم نكس محجم
مشفق راهبنا لا يقدم

قلبه يعشو لنار خامده
صورت عيناه دنيا هاجده

طار من عش إلى الأوج العلي
ثم لم يرجع إلى العش الخلي

هلك أقوام بهذا الثمل
حرموا بالنوم ذوق العمل

Thursday, October 22, 2009

Change Your Thinking

Two men, both seriously ill, occupied the same hospital room.

One man was allowed to sit up in his bed for an hour each afternoon to help drain the fluid from his lungs.

His bed was next to the room's only window.

The other man had to spend all his time flat on his back.
The men talked for hours on end.

They spoke of their wives and families, their homes, their jobs, their involvement in the military service, where they had been on vacation.

Every afternoon, when the man in the bed by the window could sit up, he would pass the time by describing to his roommate all the things he could see outside the window.

The man in the other bed began to live for those one hour periods where his world would be broadened and enlivened by all the activity and color of the world outside.

The window overlooked a park with a lovely lake.

Ducks and swans played on the water while children sailed their model boats.Young lovers walked arm in arm amidst flowers of every color and a fineview of the city skyline could be seen in the distance.

As the man by the window described all this in exquisite details, the man onthe other side of the room would close his eyes and imagine this picturesque scene.

One warm afternoon, the man by the window described a parade passing by.

Although the other man could not hear the band - he could see it in his mind's eye as the gentleman by the window portrayed it with descriptive words.

Days, weeks and months passed.

One morning, the day nurse arrived to bring water for their baths only to find the lifeless body of the man by the window, who had died peacefully in his sleep.

She was saddened and called the hospital attendants to take the body away.

As soon as it seemed appropriate, the other man asked if he could be moved next to the window. The nurse was happy to make the switch, and after making sure he was comfortable, she left him alone.

Slowly, painfully, he propped himself up on one elbow to take his first look at the real world outside.
He strained to slowly turn to look out the window besides the bed.


It faced a blank wall.

The man asked the nurse what could have compelled his deceased roommate who had described such wonderful things outside this window.

The nurse responded that the man was blind and could not even see the wall.

She said, 'Perhaps he just wanted to encourage you.'


Epilogue:

There is tremendous happiness in making others happy, despite our own situations.

Shared grief is half the sorrow, but happiness when shared, is doubled.

If you want to feel rich, just count all the things you have that money can't buy.

Thursday, September 10, 2009

یہ وقت بھی گذر جائے گا

کسی بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام پڑھے لکھے، عقلمند اور عالم قسم کے لوگوںکو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ، منتر یا مقولہ ہے کہ کو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، ہر صورتحال اور ہر وقت میں اس ایک سے کام چل جائے۔ کوئی ایسا مشورہ جو کہ میں اگر اکیلے میں ہوںاور میرے ساتھ کوئی مشورہ کرنے والا نہ ہو تب بھی مجھے اس کا فائدہ ہو؟


تمام لوگ بادشاہ کی اس خواہش کو سن کر پریشان ہوگئے کہ کون سی ایسی بات ہے جو کہ ہروقت، ہر جگہ کام آئے؟ جو کہ ہر صورتحال، خوشی، غم، الم، آسائش، جنگ و جدل، ہار، جیت غرضکہ ہر جگہ فٹ ہو سکے؟ِ


کافی دیر آپس میںبحث و مباحثہ کے بعد ایک بوڑھے آدمی نے ایک تجویز پیش کی جسے تمام نے پسند کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔


انہوں نے بادشاہ کی خدمت میں ایک کاغذ پیش کیا اور کہا کہ اس میں وہ منتر موجود ہے جس کی خواہش آپ نے کی تھی۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اس کو صرف اس وقت کھول کر دیکھیں گے جب آپ اکیلے ہوں اور آپ کو کسی کی مدد یا مشورہ درکار ہو۔ بادشاہ نے اس تجویز کومان کر کاغذ کو نہایت حفاظت سے اپنے پاس رکھ لیا۔


کچھ عرصے کے بعد پڑوسی دشمن ملک نے اچانک بادشاہ کے ملک پر حملہ کردیا۔ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ بادشاہ اور اس کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ فوج نے اپنے بادشاہ کے ساتھ ملکر اپنے ملک کے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن بالآخر انہیں محاذ سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ دشمن ملک کے سپاہی بادشاہ کے پکڑنے اس کے پیچھے لگ گئے اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لیئے گھوڑے پر بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں دوسری طرف گہری کھائی تھی اور ایک طرف دشمن کے سپاہی اس کا پیچھا کرتے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے تھے۔


اس صورتحال میں اسے اچانک اس منتر کا خیال آیا جو کہ اسے بوڑھے شخص نے دیا تھا۔ اس نے فورا اپنی جیب سے وہ کاغذ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس کاغذ پر لکھا تھا کہ "یہ وقت بھی گذر جائے گا"


بادشاہ نے حیران ہوکر تین چار دفعہ اس تحریر کو پڑھا — اسے خیال آیا کہ یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ ابھی کل ہی وہ اپنی حکومت میں سکون کی زندگی گزار رہا تھا اور تمام عیش و آرام اسے میسر تھا اور آج وہ دشمن سے بچنے کیلیئے بھاگتا پھر رہا ہے؟ جب آرام اور عیش کے دن گذر گئے تو یقینا یہ وقت بھی گذر جائے گا۔ یہ سوچ کر اسے سکون آگیا اور وہ پہاڑ کے آس پاس کے قدرتی مناظر کو دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اسے گھوڑوںکے سموں کی آوازیں معدوم ہوتی سنائی دیں، شاید دشمن کے سپاہی کسی اور طرف نکل گئے تھے۔


بادشاہ ایک بہادر آدمی تھا۔ جنگ کے بعد اس نے اپنے لوگوں کا کھوج لگایا جو آس پاس کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اپنی بچی کھچی قوت کو مجتمع کرنے کے بعد اس نے دشمن پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ جب وہ جنگ جیت کے اپنی مملکت میں واپس جارہا تھا تو اس کے ملک کے تمام لوگ استقبال کے لیئے جمع تھے۔ اپنے بہادر بادشاہ کے استقبال کے لیئے لوگ شہر کی فصیل، گھروں کی چھتوں غرض کہ ہر جگہ پھول لیئے کھڑے تھے اور تمام راستے اس پر پھول نچھاور کرتے رہے۔ہر گلی کونے میں لوگ خوشی سے رقص کررہے تھے اور بادشاہ کے شان میں قصیدے گا رہے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے فوجی قافلے کے ہمراہ بڑی شان سے کھڑا لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ دیکھو لوگ ایک بہادر کا استقبال کیسے کرتے ہیں، میری عزت میں اب اور اضافہ ہوگیا ہے، اور کیوںنہ ہوتا، دشمنوں کو ماربھگانا کوئی اتنا آسان نہیں تھا اور خصوصا ایک مکمل شکست کے بعد۔


یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے اس کاغذ کے مضمون کا خیال آگیا "یہ وقت بھی گذر جائے گا"۔ اس خیال کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اپنے آپ پر غرور ایک ہی لمحہ میں ختم ہوگیا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ وقت بھی گذر جائے گا تو یہ وقت میرا نہیں۔ یہ لمحے یہ حالات میرے نہیں، یہ ہار اور یہ جیت بھی میری نہیں۔ہم صرف دیکھنے والے ہیں، ہر چیز کو گذر جانا ہے اور ہم صرف ایک گواہ ہیں۔


ہم صرف محسوس کرتے ہیں۔ زندگی آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ خوشی اور غم کا بھی یہی حال ہے۔ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانچیں۔ اپنی زندگی میں خوشی، مسرتوں، جیت، ہار اور غم کے لمحات کو یاد کریں۔ کیا وہ وقت مستقل تھا؟ وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔


زندگی گذر جاتی ہے۔ ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ جو آج دوست ہیں وہ کل نہیں رہیںگے۔ ماضی کے دشمن بھی نہیں ہیں اور آج کے بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کوئی بھی مستقل اور لازوال نہیں۔


ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا قانون نہیں بدلتا۔ اس بات کو اپنی زندگی کے تناظر میں سوچیں۔آپ نے کئی تبدیلیوں کو زندگی میںدیکھا ہو گا، کئی چیزوں کو تبدیل ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا ہو گا۔ آپ کی زندگی میںکئی بار غم اور شکست کے حالات آئے ہوںگے اور اسی طرح آپ نے کئی پرمسرت لمحات بھی گذارے ہوںگے۔ دونوں قسم کے وقت کو گذر جانا ہے، کچھ بھی مستقل نہیں ۔ ہم اصل میںکیا ہیں پھر؟ اپنے اصل چہرے کو پہچانیئے ۔ ہمارا چہرہ اصل نہیں ہے۔ اس نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جانا ہے۔ تاہم آپ کے اندر کچھ ایسا ہے کہ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔


کیا چیز ہے جو کہ غَیر مُتغَیَّر ہے؟ شاید آپ کے اندر کا صحیح انسان۔ آپ صرف تبدیلی کے گواہ ہیں، محسوس کریں اور اسے سمجھیں ۔


اپنی زندگی کی منفی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور اپنی ذات سے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں -






رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اور رہنے والے ہمارے اعمال


سوچیں اور عمل کریں