Tuesday, September 4, 2012

تن بہ تقدير


اسي قرآں ميں ہے اب ترک جہاں کي تعليم
جس نے مومن کو بنايا مہ و پرويں کا امير
'تن بہ تقدير' ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھي نہاں جن کے ارادوں ميں خدا کي تقدير
تھا جو 'ناخوب، بتدريج وہي ' خوب' ہوا
کہ غلامي ميں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمير

Saturday, September 1, 2012

woh bada sa ghar

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

چک لالہ سے ریل کار کے نکلتے  ہی عجیب اور محصور کن خشبو کا احسساس ہونا شروع ہوتا تھا ، پانچ گھنٹے کی تھکا دینے والے سفر کے باوجود جب ہم روالپنڈی پہنچتے تو خوشی اور جوش خروش ہوتا تھا. ٹیکسی میں بیٹھے ہم اماں سے پوچھتے کہ روالپنڈی کب آئےگا. اماں ہماری معصومیت پر مسکرا کہتیں بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے.اور ہم سڑک پر آتی جاتی رنگ برنگی گاڑیوں کو دیکھنا شروع کردیتے - ٹیکسی صدر سے نکل کر پشاور روڈ پر چوہڑ کی طرف مڑ جاتی.  چوہڑ سے لگ بھگ ١ کلومیٹر پہلے چیرنگ کراس سے ٹیکسی آر.اے. بازار کے راستہ سے ویسٹرج طرف مڑتی تو ایک بار پھر سنبھل کر بیٹھ جاتے اور راستوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے. یہاں ملٹری کے متعد یونٹس ہوتے تھے اور آج بھی ہیں، بھول بھلیوں سے ہوتے ہوتے ہم جب پانی کی بلند و بالا ٹینکی کا پاس پہنچتے تو شور مچا کر خوشی کا اظہار کرتے. ٹینکی سے آگے دائیں طرف الہ آباد روڈ تھی جس پر وہ گھر تھا.

الہ آباد روڈ پر بائیں طرف قبرستان تھا جسکے ساتھ  ایک باریک سی سڑک چوہڑ کو جاتی تھی، اور بائیں طرف کچے پکے مکانات تھے. تھوڑا آگے چل کر بائیں طرف دکانیں ہوتی تھیں، ان میں ایک کچی گلی تھی جس میں محلے کی مسجد کا راستہ  اور گھر کی پچھلی دیوار تھی، اس دیوار میں دو دروازے تھے. الہ آباد روڈ پر بائیں جانب دکانوں کا سلسلہ گھر کے مین گیٹ پر ختم ہوتا تھا.  گیٹ کےدوسری  جانب ساتھ  ہی ایک گلی تھی جو آگے جا کر قبرستان کی طرف مڑ جاتی. اس گلی میں ایک سبزی کی دکن تھی، جو کہ راجہ کی دکا ن کی نام سے جانی جاتی تھی.

گیٹ  سے اندر داخل ہوتے تو گیراج کے بائیں طرف ڈرائنگ روم کی بیرونی دروازہ تھا اوردوسری  طرف سات آٹھ فٹ کی دیوار تھی جو کہ اپر سے کھلی تاکہ گیراج روشن اور ہوا دار رہے. گیٹ کے دونوں اطراف میں پودے اور بیلیں لگائی گئیں تھیں. جن میں ایک نارنجی رنگ کا اور گھنٹی شکل کا پھول کھلتا تھا. موسم میں ان پھولوں سے بھری بیل انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتی تھی. سامنے چار پٹ کا دروازہ تھا. یہ ایک عجیب و غریب قسم کا  دروازہ تھا، دو پٹ دائیں کو اور دو بائیں کو تہ ہوتے تھے. میں نے یہ دروازہ شاز ہی مکمل طور پر کھلا دیکھا ہو گا، ہمیشہ ایک حصہ کھولا جاتا تھا جوکہ درمیان سے ایک تھا،  اور تین حصہ بند رکھے جاتے تھے. درمیان کا دوسرا حصہ کبھی کبھار ہی کھولا جاتا تھا، ان کی نیچے کی چٹخنی اتنی ڈھیلی ہو چکی تھی کہ فرش پر دو عدد نیم دائرے کدے ہوئے  تھے. دروازہ کے باہر دونوں اطراف میں دو دو ستون تھے جو سرخ اور نیلے  رنگ کے تھے. دروازہ کے دائیں طرف ایک تختی نسب تھی جس پر پیتل کے حروف سے انگریزی میں میجر محمد بشیر ١٩٤٨ لکھا گیا تھا. غالبا یہ وہ تاریخ تھی جس سال  یہ گھر بنایا گیا تھا. اس دروازہ کے اندر کی طرف دونوں جانب ان کی جنگ عظیم دوم کے وقت کی یونٹس کی گروپ فوٹو لگی تھیں.  ساتھ میں ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ تھا جسکا رنگ  ہلکا گلابی تھا. یہ دروازہ موسم کے ساتھ  ساتھ چلتا تھا، یعنی سردیوں میں تو آسانی کھلتا اور بند ہوتا تھا، لیکن گرمیوں میں نہ پوری طرح بند ہوتا اور نہ ہی آسانی سے کھلتا تھا.

ڈرائنگ روم کی چھت گیراج کے برابر تھی، یعنی کہ باقی کمروں سے نچی تھی. ڈرائنگ روم میں ان کا ایک پورٹریٹ لگایا گیا تھا، جو کہ  ان کے صاحبزادہ نے اس قدر عمدگی سے نیلے رنگ سے بنایا تھا. پورٹریٹ کی سب سے زایدہ خاصیت یہ تھی کہ چہرہ نہ تو بلکل سامنے سے تھا اور نہ ہی بلکل سائیڈ سے تھا، بلکہ تھری قواٹر تکنیک استعمال کی گئی تھی، اور دیکھنے والا جو بھی ہوتا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا.

برامدہ کی دوسری طرف ڈائنگ روم تھا، یہ اونچی چھت والے کمروں میں سے ایک تھا، اس کے علاوہ دو یا تین اور کیمرے بھی اونچی چھت والے تھے. اس زمانے میں چھتیں کافی زیادہ اونچی ہوا کرتی تھیں، اور ان میں چھت کے قریب روشن دان بنانے جاتے تھے. ان روشن دانوں کو رسیوں سے کھولا اور بند کیا جاتا تھا. یہ لکڑی کے بنے ہوتے تھے اس لیے گرمیوں میں لکڑی پھولنے کی وجہ سے پھنس جاتے تھے تو ہم اوپر جا کر کھولتے تھے. ان کمروں کی چھتوں میں لکڑی کے بھالے استمعال ہوے تھے. اور ایک دیوار میں  انگیٹھی نسب تھی جس کے دھویں کے اخراج کے لیے چمنیاں بنائیں گئیں تھیں.

ڈائنگ روم میں بائیں جانب ایک باریک سا کمرہ  تھا جوکہ سٹور کم چینج روم تھا. اس کی چوڑائی دروازہ جتنی ہی تھی. اس میں کچھ صندوق اور دیواروں پر کپڑے ٹانگے رہتے تھے. اس کے دروازے کے ساتھ ڈائنگ روم کی وہ دیوار تھی جسکے دوسری جانب غالبا مسجید کا حصہ تھا. انگٹھی میں نمک کی چٹان کا بڑا سا ٹکڑا رکھا تھا. اور انگیٹھی کی سامنے کی دیوار پر چڑیا والی گھڑی تھی، جو ہر گھنٹے اتنی ہی بار بولتی تھی جتنے بجتے تھے. ڈائنگ روم کے داخلی دروازہ کی دائیں جانب خواب گاہ  تھی جسکا دوسرا دروازہ کامن روم میں کھلتا تھا. اور خواب گاہ کے باتھروم کی کھڑکی گیراج میں کھلتی تھی.

 ڈائنگ روم کے داخلی دروازہ کے بلکل سامنے کا دروازہ ایک راہداری میں کھلتا تھا. اس راہداری میں بائیں طرف باورچی خانہ تھا اور دوسری طرف کامن روم کا میں دروازہ اور صحن کا دروازہ تھا.  یہ راہداری انگریزی حرف "L" سے مشابہت رکھتی  تھی. اس کے آخر میں واش روم تھا اور اسکے دائیں جانب دیوڑ ھی تھی جسکا دوسرا دروزہ راجہ کی دوکان والی گلی میں کھلتا تھا. یہاں لکڑی کے دو بڑے بڑے دروازے تھے، جنکی چٹخنیاں چپٹی تھیں اورہم بچوں سے مشکل سے ہی کھلتی تھیں، آپ اس دروازے کو بیک ڈور کہ سکتے ہیں، اس دروازے کا دائیں طرف سیڑھیوں کا وہ راستہ تھا جو کہ سیدھا تیسرے منزل میں نکلتا تھا.

واش روم اور دیوڑ ھی کے  درمیان سے راستہ ہوتا ہوا ایک علیحدہ حصے میں نکلتا تھا جوکہ تین یا چار کمروں پر مشتمل تھا، اور کچھ عرصہ کرایہ پر چڑھا  رہا. گھر کے ہر کمرے  کے دروازے  پرنمبر لگائے گائے تھے. اگر گھر کے پلاٹ کواپر سے دکھائیں توایک کونے میں مسجد، چاروں اطراف میں کمرے اور درمیان میں صحن، بطرز حویلی.

صحن میں دو سیڑھیوں چھت پر جاتی تھیں، ایک باورچی خانے کے باہردائرے کی طرز پر ، اور دوسرے واش روم کے باہرسیدھی. صحن میں باورچی خانہ کی دیوار پر چھتی تھی یہاں سے جب ہم جمپنگ کرتے تو ہمیں کافی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا. صحن کی دوسری طرف مرغیوں کے ڈبے تھے اورایک ٹویلٹ تھا. صحن میں کچھ درخت اور کچھ کیاریاں لگائی گئیں تھین، اور پکے فرش پر پودے گملوں میں لگا ئے گئے تھے. درختوں میں انار، شہتوت، امرود، کمقاٹ اور لوکاٹ کے درخت قبل ذکرہیں. 

وقت کے ساتھ ساتھ متعد تبدیلیاں ک گئیں تھیں، مثلا مرغی خانہ ختم کرکے کمرے بنا دئے گئے تھے، واشروم ختم کرکے چھوٹا باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا.  گیراج ختم کرکے ایک کمرہ بنا دیا گیا تھا، ڈرائنگ روم کی جگہ بیکری نے لے لی تھی.  وہ  گھر اب گھر نہیں رہا تھا، وقت کی ضرورت کے تحت کچھ حصہ شائد بیچ دیا گیا، اور کچھ مزید کمرے گرا کر مارکیٹ بنا دی گئی. اوپر مکینوں کی رہائش کے لئے چند کمرے ڈال دیے گئیے تھے.

یہ اور بہت سی یادیں جو پچھلے پینتیس سال سے جمع کر رہا تھا ، اب ذہن سے معدوم ہوتی جا رہیں ہیں. اور بہت سی یادیں قلم کی زبان پر انے سے قاصر ہیں. ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں سب کزنز کا جمع ہونا، خوب کھیل کود کرنا، شرار تیں اور ڈانٹ پیٹ، ہلہ گلہ ، درختوں پر چڑھ کر فروٹ کھانا، وہ ہمسایوں کی شکایتیں انگور توڑنے پر، وہ شادیوں کے فنکشن، وہ راتوں کو جاگنا، وہ  یادیں اب ختم ہوتی جا رہیں.

سب پرندے اپنے گھونسلوں کو ہو لئے، نئ نسل نے کام سنبھال لئے ہیں، اب جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے، بچی کھچی یادوں کے سہارے باندھتا ہوا جاتا ہوں ، لیکن ایک نئی جگہ محسوس ہوتی ہے. اور دکھی دل کے ساتھ واپس آتا ہوں. اب تو وہاں جانے کا دل بھی نہیں کرتا، کہ ٹوٹے ہووے دل سے آنا ہو گا. 

یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا