Sunday, March 24, 2013

پاک ٹی ہاؤس

جب سے ہوش سنبھالاہے، پاک ٹی ہاؤس کا نام سنتے چلے آئے ہیں۔ لیکن کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا، ہوتا بھی کیسے عرصہ دراز سے بند پڑا تھا۔ کئی بار خواہش ہوئی کہ کاش وہاں جائیں اور لائیو ادبی محفل دیکھیں، محسوس ہوتا تھا کہ یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوگی، دوکان کا مالک ٹائیروں کا کاروبار کر نا چاہتا تھا۔ کہاں ادبی محفل اور کہاں ٹائر۔ حال ہی میں اس کو دوبارہ سجا سنوار کرکھول دیا گیا, سن کر خوشی ہوئی.
 اردو محفل کا دعوت نامہ موصول ہوا، 24 مارچ دوپہر 2 بجے، فوراً موبائل پر تین گھنٹےپہلے کا الارم لگایا اور گھر والوں کو تاکید کر دی کہ ہمارا وہاں جانا نہائیت ضروری ہے کہ ہمارے بغیر محفل نامکمل ہو گی اور نہیں چل سکے گی۔

الغرض بروز اتوار مقرر کردہ وقت سے 15 منٹ پہلے ہی پہنچ گئے. اندر گئے محفلیں کو ڈوھنڈا کوئی جانی پہچانی شکل نظرنہ آئی سوچا 15 منٹ ہیں ذرا باہرہی گھوم لیا جائے۔ اتوار کی وجہ سے مارکیٹ بند تھی اور پاک ٹی ہاؤس اور انارکلی کے درمیان سڑک پر اور ملحقہ گلیوں میں، عارضی اسٹالوں  پر کتابوں ڈھیر  لگائے گئے تھے،  یہ تمام استعمال شدہ کتب تھیں، دیکھ کر افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی ہوئی۔ اسٹال عام طور پر اتوار کو ہی لگتے ہیں، کیونکہ بازار اور دوکانیں بند ہوتی ہیں۔ یہاں ہر قسم کی کتابیں مل جائیں گی علمی و ادبی، سائنسی و تکنیکی، اسکول و کالج کی، پرانی انٹیک و نئی، ملکی و غیر ملکی رسائل وغیرہ بہت ورائٹی ملے گی۔ایسی جگہوں پر نرخ فکس نہیں ہوتے، خریدار کی شکل اور حلیہ کی مناسبت سے لگائے جاتے ہیں اور بھاؤ تاؤ بھی ہو ہی جاتا ہے۔


  
15 منٹ یوں ہی گزر گئے، دوبارہ اندر آئے نظر دوڑائی اس بار سوائے ان انگریزوں کے جو کچھ دیر پہلے باہر کتابیں خرید رہے تھے کوئی خاص شخصیت نظر نہ آئی۔ غیر ارادی طور پر محسوس ہوا کہ  ایک کونے سے ہماری نگرانی کی جارہی ہے، وہاں دو باریش جوان شائد اخبار پڑھ رہے تھے یا پھر منہ چھپا رہے تھے۔ ان کی شکلیں کچھ مانوس لگ رہی تھیں، خیال آیا کہ جا کر استفسار کیا جائے اگلے ہی لمحہ اس خیال کو جھٹک دیا کہ کہیں پاک ٹی ہاؤس والے ہمیں باہر نہ کر دیں۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر مزید 15 منٹ تک بٹ صاحب نہ آئے تو میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔



 اسی لمحہ ایک حضرات اندر آتے دکھائی دئیے اور اپنے پیچھے آنے والے حضرت سے کہا، یہ سب تو اندر بیٹھے ہیں۔ یہ یقیناً بٹ صاحب تھے، اور انکے ساتھ بابا جی تھے۔ بٹ صاحب کو دیکھتے ہی چاروں کونوں لوگ ایسے اکٹھے ہوگئے گویا ان کو اٹھا کر باہر پھینکنا چاہتے ہوں۔ نیچے رش زیادہ تھا، اس لئیے طے پایا کہ اوپر چلا جائے، وہاں ٹیبلز جوڑ کر مورچے سنبھالے ہی تھے کہ  پردیسی بھائی بھی آگئے،  ان کے آتے ہی  فوٹو سیشن شروع ہو گیا۔
 

ابھی سانسیں بحال کر کے تعارف ہورہا تھا، بٹ صاحب نے بیرے سے کھانے کی بابت پوچھا اس نے بتایا آج بریانی نہیں ہے، اور بریانی و برگر نہ ہوں گے۔یعنی مرغی کا ناغہ ہے. ہم سب  کے سامنے پردیسی بھائی نے تجویز پیش کی کہ نہاری کھائی جائے،  تقریباً تقریباً سبھی رازی  سوائے قادری صاحب کے،  اس سے پہلے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا، پردیسی بھائی نے دوسری آپشن دی کی یاسر بروسٹ چلتے ہیں، اس بار سب خوشی خوشی اس طرف چل پڑے جہاں یاسر بروسٹ تھا۔


پرانی انار کلی اور نئی انارکلی کے درمیان صرف زیبرا کراسنگ ہے،  نجانے پھر دو نام کیوں؟ خوامخواہ نئی دلی کا گمان ہوتا ہے.  یاسر بروسٹ پرانی انار کلی میں ایک دو منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ ہم نے اوپر والے ہال میں دیواری سائز کی کھڑکی کے قریب ہی بیٹھنے کا ارادہ کیا، اس سے اوپر اے سی والے کمرے بھی تھے لیکن ہم نے کھلے روشن اور ہوا دار جگہ کا انتخاب کیا اور وہیں بیٹھے۔ دیواروں پر واٹر کلر پینٹنگز آویزاں تھیں جو ماحول کو خوبصورت بنا رہیں تھیں۔ کھانے کا آرڈر دیا گیا اور پھر فوٹو سیشن ہوا، بٹ صاحب کھانے کی تصاویر ایسے کھنچ رہے تھے جیسے کھانا کم پڑنے کی صورت میں تصویروں سے گزارا کرنا ہو گا۔
 
 
 کھانا کھا کر ہم لوگ واپس پاک ٹی ہاؤس آئے اور دوبارہ اسی جگہ پر محفل جمائی۔ چائے منگوائی گئی اور ساتھ میں بسکٹ اور کیک بھی۔ چونکہ گفتگو کا موضوع پہلے سے طے شدہ نہیں تھا، اسلیئے متفرقات پر ہی سیر حاصل بحث کی گئی، ان میں متلاشی بھائی کے فونٹ کے کام پر، ہلکی پھلکی سیاسی بحث، اور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ، چٹکلے ، جگتیں وغیرہ میں وقت گزرنے احساس ہی نہ ہوا اور عصر کی آذان سنائی دی، یعنی پانچ بج رہے تھے۔ پردیسی بھائی نے ایک دو مرتبہ توجہ دلائی کہ محفل برخاست ہونی چاہیئے لیکن کسی کا اٹھنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا.۔ پھر ہمیں خود احساس ہوا کہ پردیسی بھائی تھکاوٹ کا شکار ہیں۔



 باہر آ کر الوداعی تقریب شروع ہوئی، جو کہ 15 منٹ جاری رہی، اس تقریب میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے گیے ان میں فوٹو سیشن چوتھا حصّہ، فون نمبرز کا تبادلہ اور چار چار بار گلے ملنا شامل تھے۔ اتنا تو عید میں ہی گلے ملنا ہوتا ہے، یا پھر کوئی عزیز حج کرنے جا رہا ہو۔

پچاس سال پرانی پاک ٹی ہاؤس کی تصویر

پاک ٹی ہاؤس کی بہت پرانی تصویر

Tuesday, March 19, 2013

آؤ میرے مہماں آؤ

میں بلبل ہوں 
مجھے تھوڑی پیاس لگی ہے پانی ملے گا؟ گلا خشک ہو رہا ہے!
جی ضرور ۔۔۔
اور کچھ کھانے کو مل سکتا ہے؟
وہ۔۔۔
ٹھیک ہے بریڈ بھی چلے گی۔

.
.
.
.
.
 بلبل بھیا ذرا سائڈ پر ہوں، میں پانی پینا چاہتی ہوں، پلیز!
.
.
.
.
.
بی چڑیا ! اپنی دوست کو بھی بلا لو، اسے بھی پیاس لگی ہو گی
 .
.
.
.
.
ارے یہ تو سبھی آگئے !
میں تو چلا ۔۔۔
.
.
.
.
.
چلو چلو چلو مینا  آپی آ رہی ہیں۔
.
.
.
بی چڑیو! ٹہر جاؤ، ذرا بات تو سنو ۔۔۔ 


اللہ تیرا شکر
 تو نے ہمارے لئے پینے کو پانی، اور کھانے کو اناج دیا۔
.
.
.
یہ نادان چڑیاں اللہ  انکو کتنا سمجھاؤں۔۔۔
.
.
.
.
.

شکریہ بی مینا ، میرے لیئے بھی کچھ چھوڑا۔۔۔
.
.
.
.
.
نوٹ: آپ سب احباب سے گزارش ہے کہ آپ اپنے گھر کی دیوار یا چھت پر پانی کے برتن رکھیں، اور وقتاً فوقتاً اس میں پانی بھرتے رہیں تانکہ گزرنے والے پرندے شدید گرمی میں اپنی  پیاس بجھا سکیں،
شکریہ
اللہ آپکو آسانیاں عطا فرمائے۔