Monday, December 24, 2012

بس یہی دل



پچھلے دنوں مجھے ایک تقریب میں شرکت کا اتفاق ہواجس کا انعقاد ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ یہ تقریب جس ہال میں منعقد کی گئی تھی اس کا ماحول بہت مسحور کن تھا۔ وسیع ہال، بڑ ے بڑے خوبصورت فانوس، دبیز قالین، ٹھنڈی فضا، خوش رنگ پردے اور دیواریں اور ان سب کے ساتھ ایک پرتکلف عشائیہ ۔

میں اس محفل میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح کے ماحول میں ایسی محافل دنیا بھر میں عام ہوتی ہیں ۔ مگر ان میں ہر کس و ناکس کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسی جگہوں پر داخلے کی ایک قیمت ہوتی ہے جو صرف نامور، باصلاحیت، صاحب حیثیت اوربااثرلوگ ہی دے سکتے ہیں ۔ معاشرے کے عام افراد کی پہنچ سے یہ سب کچھ ساری زندگی باہر ہی رہتا ہے ۔

ایسے میں مجھے خیال آیا کہ مالک کائنات جب اپنی جنت بنائے گا تو یقیناً وہ دنیا کی ان تمام نعمتوں سے زیادہ حسین ہو گی۔ مگر اس جنت کی خوبیوں میں سے سب سے بڑ ی خوبی یہ ہے کہ اس میں داخلہ کے لیے کوئی مال، کوئی نام ، کوئی صلاحیت اور کوئی اثر و رسوخ نہیں چاہیے۔ جنت کی حسین وادی ، اس کی پرلطف محفلوں ، اس کی ابدی بادشاہی اور اس کی غیر فانی نعمتوں کے حصول کی قیمت کچھ نہیں ۔ بس اک ٹوٹا ہوا دل ۔ ۔ ۔ رب کی عظمت کے احساس سے پاش پاش دل ۔ یہی جنت کی قیمت ہے ۔

وہ دل جس میں اخلاص ہو۔ رب کی سچی چاہت ہو۔ اس کی اطاعت کا جذبہ ہو۔ اس کے نام پر مرمٹنے کی خواہش ہو۔ اس کے عہد کی پاسداری ہو۔ اس سے وفا کا عزم ہو۔ اس کی رحمت کی امید ہو۔ اس کی پکڑ کا خوف ہو۔ اس سے ملاقات کا شوق ہو۔ اس کے رسول کی محبت ہو۔ اس کے دین کی حمیت ہو۔ اس کی فردوس کی رغبت ہو۔ بس یہی ۔ ۔ ۔ بس یہی دل چاہیے ۔

لوگ ٹوٹی ہوئی چیزیں پھینک دیتے ہیں ۔ مگر خداٹوٹے ہوئے دل کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہے ۔ اتنا زیادہ کہ اس کے بدلے میں اپنی سب سے بڑ ی نعمت۔ فردوس کی ابدی بادشاہی۔ دینے کے لیے تیار ہے ۔ مگر کیا کیجیے کہ آج لوگوں کے پاس ساری دینداری ہے ۔ ۔ ۔ یہی ٹوٹا ہوا دل نہیں

اقتباس : بس یہی دل از ابو یحییٰ

Friday, November 9, 2012

Iqbal day (Allama Iqbal's 135th birthday)

آج صبح ٹی وی پر مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب دیکھ رہا تھا، نیوی کا چاق و چوبک دستہ اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے تیار تھا، پس پردہ اقبال کی شاعری پر منتخب شدہ نظمیں چل رہی تھیں جو ایک جزبہ جگا رہی تھیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ لاہور میں ہوتے ہوئے اگر مزار اقبال پر حاضری نہ دی تو۔۔۔ سال میں صرف ایک مرتبہ ۔۔۔ بس۔۔۔

چند روز قبل انٹرنیشنل قبال سوسائٹی کے ایک کارکن کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا، پورے ہفتہ کی دفتری تھکان دور کرنے کے کیلئے چھٹی کا انتظار، سواری مناسب بندوبست نہ ہونا، سڑکوں کے  زیر تعمیر کام، دل نہیں چاہ رہا تھا کہیں جانے کو، پھر سوچا اقبال کے پوتے جناب منیب اقبال سے شاید ہاتھ ملا نے کا موقع مل جائے، یا ایک دو تصاویر...

یہی سوچتے ہوئے ایک دوست کو فون کیا اسنے دفتری مصروفیت کا بہانہ بنا دیا، بھلا عام تعطیل اور دفتر ؟ پھر ایک اور دوست کو فون ۔۔۔ بات بن گئی، فیصل بخش کے ساتھ پروگرام طے پا گیا۔

جمعہ سے کچھ دیر پہلے گھر سے نکلے اور مناسب وقت پر حضرت علی ہجویری کے مزار سے ملحقہ مسجد میں پہنچے۔ جمعہ کے بعد مزار پر فاتحہ پڑھی اور آگے روانہ ہو گئے۔ تقریبا تین بجے ہم شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع اقبال کے مزار پر پہنچے۔

وہاں ایک جم غفیر موجود تھا، لوگ ٹولیوں کی شکل میں مزار میں جاتے اور فاتحہ پڑھ کر واپس آتے، یہ سلسلہ صبح شروع ہوا تو مغرب کے بعد تک جاری رہا۔  سامنے گراؤنڈ میں سو سائٹی کی جانب سے سٹیج تیار کیا گیا تھا، مقررین باری باری سٹیج پر آ کر اقبال کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

سوسائٹی کے صدر نے کہا ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ کوئی فائدہ مند چیز ہے جو ہمیں حا صل کرنی ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقبال کا پیغام ہے جو ہمیں سمجھنا بھی ہے اور اپنے اوپر لاگو بھی کرنا ہے۔

تھوڑی دیر میں جناب منیب اقبال بھی تشریف لے آئے،  آتے ہی انہوں نے پہلے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ پڑھی، ایک بچے نے منیب بھائی کی درخواست پر یہ نظم سنائی۔

خودي کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
                                          خودي ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ
يہ دور اپنے براہيم کي تلاش ميں ہے
                                          صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
کيا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
                                          فريب سود و زياں ، لا الہ الا اللہ
يہ مال و دولت دنيا، يہ رشتہ و پيوند
                                          بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ
خرد ہوئي ہے زمان و مکاں کي زناري
                                          نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ
يہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند
                                          بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہيں جماعت کي آستينوں ميں
                                          مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ

لوگ منیب اقبال کا بہت بیچینی سے انتظار کر رہے تھے، کہ انکو سنیں۔ وہ سٹیج پر آئے اور اقبال کے واقعات اور شعر سنائے، اسکے بعد رات تک اقبال کے مداحوں کو آٹوگراف دیتے رہے۔

 سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا
                                         خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا
کتاب ملت بيضا کي پھر شيرازہ بندي ہے
                                         يہ شاخ ہاشمي کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا
ربود آں ترک شيرازي دل تبريز و کابل را
                                         صبا کرتي ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا
اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے
                                         کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتي ہے سحر پيدا
جہاں باني سے ہے دشوار تر کار جہاں بيني
                                         جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتي ہے نظر پيدا
ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے
                                         بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا

اور


 عقابي روح جب بيدار ہوتي ہے جوانوں ميں
                                         نظر آتي ہے اس کو اپني منزل آسمانوں ميں
نہ ہو نوميد ، نوميدي زوال علم و عرفاں ہے
                                         اميد مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں ميں
نہيں تيرا نشيمن قصر سلطاني کے گنبد پر
                                         تو شاہيں ہے ، بسيرا کر پہاڑوں کي چٹانوں ميں

Saturday, November 3, 2012

احسان کا پھندہ


جناب شیخ سعدی علیہ رحمۃ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کی پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی تو شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے۔
اس پر اس جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ وہ اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا، پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔
ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔

Wednesday, October 10, 2012

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے ـــ کشور ناہید

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ جو علم سے بھی گریز پا
کریں ذکررب کریم کا
وہ جو حکم دیتا ہے علم کا
کریں اس کے حکم سے ماورا یہ منادیاں
نہ کتاب ہو کسی ہاتھ میں
نہ ہی انگلیوں میں قلم رہے
کوئی نام لکھنے کی جانہ ہو
نہ ہو رسم اسم زناں کوئی

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
کریں شہر شہر منادیاں
کہ ہر ایک قدِ حیا نما کو نقاب دو
کہ ہر ایک دل کے سوال کو یہ جواب دو
نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں اڑیں طائروں کی طرح بلند
نہیں چاہیے کہ یہ لڑکیاں کہیں مدرسوں کہیں دفتروں
کا بھی رخ کریں
کوئی شعلہ رو، کوئی باصفا، ہے کوئی
توصحنِ حرم ہی اس کا مقام ہے
یہی حکم ہے یہ کلام ہے۔

وہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ یہیں کہیں ہیں قریب میں
انہیں دیکھ لو، انہیں جان لو
نہیں ان سے کچھ بھی بعید، شہرِ زوال میں
رکھو حوصلہ، رکھو یہ یقین
کہ جو بچیوں سے بھی ڈر گئے
وہ ہیں کتنے چھوٹے وجود میں!

Tuesday, September 4, 2012

تن بہ تقدير


اسي قرآں ميں ہے اب ترک جہاں کي تعليم
جس نے مومن کو بنايا مہ و پرويں کا امير
'تن بہ تقدير' ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھي نہاں جن کے ارادوں ميں خدا کي تقدير
تھا جو 'ناخوب، بتدريج وہي ' خوب' ہوا
کہ غلامي ميں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمير

Saturday, September 1, 2012

woh bada sa ghar

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

چک لالہ سے ریل کار کے نکلتے  ہی عجیب اور محصور کن خشبو کا احسساس ہونا شروع ہوتا تھا ، پانچ گھنٹے کی تھکا دینے والے سفر کے باوجود جب ہم روالپنڈی پہنچتے تو خوشی اور جوش خروش ہوتا تھا. ٹیکسی میں بیٹھے ہم اماں سے پوچھتے کہ روالپنڈی کب آئےگا. اماں ہماری معصومیت پر مسکرا کہتیں بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے.اور ہم سڑک پر آتی جاتی رنگ برنگی گاڑیوں کو دیکھنا شروع کردیتے - ٹیکسی صدر سے نکل کر پشاور روڈ پر چوہڑ کی طرف مڑ جاتی.  چوہڑ سے لگ بھگ ١ کلومیٹر پہلے چیرنگ کراس سے ٹیکسی آر.اے. بازار کے راستہ سے ویسٹرج طرف مڑتی تو ایک بار پھر سنبھل کر بیٹھ جاتے اور راستوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے. یہاں ملٹری کے متعد یونٹس ہوتے تھے اور آج بھی ہیں، بھول بھلیوں سے ہوتے ہوتے ہم جب پانی کی بلند و بالا ٹینکی کا پاس پہنچتے تو شور مچا کر خوشی کا اظہار کرتے. ٹینکی سے آگے دائیں طرف الہ آباد روڈ تھی جس پر وہ گھر تھا.

الہ آباد روڈ پر بائیں طرف قبرستان تھا جسکے ساتھ  ایک باریک سی سڑک چوہڑ کو جاتی تھی، اور بائیں طرف کچے پکے مکانات تھے. تھوڑا آگے چل کر بائیں طرف دکانیں ہوتی تھیں، ان میں ایک کچی گلی تھی جس میں محلے کی مسجد کا راستہ  اور گھر کی پچھلی دیوار تھی، اس دیوار میں دو دروازے تھے. الہ آباد روڈ پر بائیں جانب دکانوں کا سلسلہ گھر کے مین گیٹ پر ختم ہوتا تھا.  گیٹ کےدوسری  جانب ساتھ  ہی ایک گلی تھی جو آگے جا کر قبرستان کی طرف مڑ جاتی. اس گلی میں ایک سبزی کی دکن تھی، جو کہ راجہ کی دکا ن کی نام سے جانی جاتی تھی.

گیٹ  سے اندر داخل ہوتے تو گیراج کے بائیں طرف ڈرائنگ روم کی بیرونی دروازہ تھا اوردوسری  طرف سات آٹھ فٹ کی دیوار تھی جو کہ اپر سے کھلی تاکہ گیراج روشن اور ہوا دار رہے. گیٹ کے دونوں اطراف میں پودے اور بیلیں لگائی گئیں تھیں. جن میں ایک نارنجی رنگ کا اور گھنٹی شکل کا پھول کھلتا تھا. موسم میں ان پھولوں سے بھری بیل انتہائی خوبصورت منظر پیش کرتی تھی. سامنے چار پٹ کا دروازہ تھا. یہ ایک عجیب و غریب قسم کا  دروازہ تھا، دو پٹ دائیں کو اور دو بائیں کو تہ ہوتے تھے. میں نے یہ دروازہ شاز ہی مکمل طور پر کھلا دیکھا ہو گا، ہمیشہ ایک حصہ کھولا جاتا تھا جوکہ درمیان سے ایک تھا،  اور تین حصہ بند رکھے جاتے تھے. درمیان کا دوسرا حصہ کبھی کبھار ہی کھولا جاتا تھا، ان کی نیچے کی چٹخنی اتنی ڈھیلی ہو چکی تھی کہ فرش پر دو عدد نیم دائرے کدے ہوئے  تھے. دروازہ کے باہر دونوں اطراف میں دو دو ستون تھے جو سرخ اور نیلے  رنگ کے تھے. دروازہ کے دائیں طرف ایک تختی نسب تھی جس پر پیتل کے حروف سے انگریزی میں میجر محمد بشیر ١٩٤٨ لکھا گیا تھا. غالبا یہ وہ تاریخ تھی جس سال  یہ گھر بنایا گیا تھا. اس دروازہ کے اندر کی طرف دونوں جانب ان کی جنگ عظیم دوم کے وقت کی یونٹس کی گروپ فوٹو لگی تھیں.  ساتھ میں ڈرائنگ روم کا اندرونی دروازہ تھا جسکا رنگ  ہلکا گلابی تھا. یہ دروازہ موسم کے ساتھ  ساتھ چلتا تھا، یعنی سردیوں میں تو آسانی کھلتا اور بند ہوتا تھا، لیکن گرمیوں میں نہ پوری طرح بند ہوتا اور نہ ہی آسانی سے کھلتا تھا.

ڈرائنگ روم کی چھت گیراج کے برابر تھی، یعنی کہ باقی کمروں سے نچی تھی. ڈرائنگ روم میں ان کا ایک پورٹریٹ لگایا گیا تھا، جو کہ  ان کے صاحبزادہ نے اس قدر عمدگی سے نیلے رنگ سے بنایا تھا. پورٹریٹ کی سب سے زایدہ خاصیت یہ تھی کہ چہرہ نہ تو بلکل سامنے سے تھا اور نہ ہی بلکل سائیڈ سے تھا، بلکہ تھری قواٹر تکنیک استعمال کی گئی تھی، اور دیکھنے والا جو بھی ہوتا ایک سحر میں مبتلا ہو جاتا.

برامدہ کی دوسری طرف ڈائنگ روم تھا، یہ اونچی چھت والے کمروں میں سے ایک تھا، اس کے علاوہ دو یا تین اور کیمرے بھی اونچی چھت والے تھے. اس زمانے میں چھتیں کافی زیادہ اونچی ہوا کرتی تھیں، اور ان میں چھت کے قریب روشن دان بنانے جاتے تھے. ان روشن دانوں کو رسیوں سے کھولا اور بند کیا جاتا تھا. یہ لکڑی کے بنے ہوتے تھے اس لیے گرمیوں میں لکڑی پھولنے کی وجہ سے پھنس جاتے تھے تو ہم اوپر جا کر کھولتے تھے. ان کمروں کی چھتوں میں لکڑی کے بھالے استمعال ہوے تھے. اور ایک دیوار میں  انگیٹھی نسب تھی جس کے دھویں کے اخراج کے لیے چمنیاں بنائیں گئیں تھیں.

ڈائنگ روم میں بائیں جانب ایک باریک سا کمرہ  تھا جوکہ سٹور کم چینج روم تھا. اس کی چوڑائی دروازہ جتنی ہی تھی. اس میں کچھ صندوق اور دیواروں پر کپڑے ٹانگے رہتے تھے. اس کے دروازے کے ساتھ ڈائنگ روم کی وہ دیوار تھی جسکے دوسری جانب غالبا مسجید کا حصہ تھا. انگٹھی میں نمک کی چٹان کا بڑا سا ٹکڑا رکھا تھا. اور انگیٹھی کی سامنے کی دیوار پر چڑیا والی گھڑی تھی، جو ہر گھنٹے اتنی ہی بار بولتی تھی جتنے بجتے تھے. ڈائنگ روم کے داخلی دروازہ کی دائیں جانب خواب گاہ  تھی جسکا دوسرا دروازہ کامن روم میں کھلتا تھا. اور خواب گاہ کے باتھروم کی کھڑکی گیراج میں کھلتی تھی.

 ڈائنگ روم کے داخلی دروازہ کے بلکل سامنے کا دروازہ ایک راہداری میں کھلتا تھا. اس راہداری میں بائیں طرف باورچی خانہ تھا اور دوسری طرف کامن روم کا میں دروازہ اور صحن کا دروازہ تھا.  یہ راہداری انگریزی حرف "L" سے مشابہت رکھتی  تھی. اس کے آخر میں واش روم تھا اور اسکے دائیں جانب دیوڑ ھی تھی جسکا دوسرا دروزہ راجہ کی دوکان والی گلی میں کھلتا تھا. یہاں لکڑی کے دو بڑے بڑے دروازے تھے، جنکی چٹخنیاں چپٹی تھیں اورہم بچوں سے مشکل سے ہی کھلتی تھیں، آپ اس دروازے کو بیک ڈور کہ سکتے ہیں، اس دروازے کا دائیں طرف سیڑھیوں کا وہ راستہ تھا جو کہ سیدھا تیسرے منزل میں نکلتا تھا.

واش روم اور دیوڑ ھی کے  درمیان سے راستہ ہوتا ہوا ایک علیحدہ حصے میں نکلتا تھا جوکہ تین یا چار کمروں پر مشتمل تھا، اور کچھ عرصہ کرایہ پر چڑھا  رہا. گھر کے ہر کمرے  کے دروازے  پرنمبر لگائے گائے تھے. اگر گھر کے پلاٹ کواپر سے دکھائیں توایک کونے میں مسجد، چاروں اطراف میں کمرے اور درمیان میں صحن، بطرز حویلی.

صحن میں دو سیڑھیوں چھت پر جاتی تھیں، ایک باورچی خانے کے باہردائرے کی طرز پر ، اور دوسرے واش روم کے باہرسیدھی. صحن میں باورچی خانہ کی دیوار پر چھتی تھی یہاں سے جب ہم جمپنگ کرتے تو ہمیں کافی ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا. صحن کی دوسری طرف مرغیوں کے ڈبے تھے اورایک ٹویلٹ تھا. صحن میں کچھ درخت اور کچھ کیاریاں لگائی گئیں تھین، اور پکے فرش پر پودے گملوں میں لگا ئے گئے تھے. درختوں میں انار، شہتوت، امرود، کمقاٹ اور لوکاٹ کے درخت قبل ذکرہیں. 

وقت کے ساتھ ساتھ متعد تبدیلیاں ک گئیں تھیں، مثلا مرغی خانہ ختم کرکے کمرے بنا دئے گئے تھے، واشروم ختم کرکے چھوٹا باورچی خانہ بنا دیا گیا تھا.  گیراج ختم کرکے ایک کمرہ بنا دیا گیا تھا، ڈرائنگ روم کی جگہ بیکری نے لے لی تھی.  وہ  گھر اب گھر نہیں رہا تھا، وقت کی ضرورت کے تحت کچھ حصہ شائد بیچ دیا گیا، اور کچھ مزید کمرے گرا کر مارکیٹ بنا دی گئی. اوپر مکینوں کی رہائش کے لئے چند کمرے ڈال دیے گئیے تھے.

یہ اور بہت سی یادیں جو پچھلے پینتیس سال سے جمع کر رہا تھا ، اب ذہن سے معدوم ہوتی جا رہیں ہیں. اور بہت سی یادیں قلم کی زبان پر انے سے قاصر ہیں. ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں سب کزنز کا جمع ہونا، خوب کھیل کود کرنا، شرار تیں اور ڈانٹ پیٹ، ہلہ گلہ ، درختوں پر چڑھ کر فروٹ کھانا، وہ ہمسایوں کی شکایتیں انگور توڑنے پر، وہ شادیوں کے فنکشن، وہ راتوں کو جاگنا، وہ  یادیں اب ختم ہوتی جا رہیں.

سب پرندے اپنے گھونسلوں کو ہو لئے، نئ نسل نے کام سنبھال لئے ہیں، اب جب بھی وہاں جانا ہوتا ہے، بچی کھچی یادوں کے سہارے باندھتا ہوا جاتا ہوں ، لیکن ایک نئی جگہ محسوس ہوتی ہے. اور دکھی دل کے ساتھ واپس آتا ہوں. اب تو وہاں جانے کا دل بھی نہیں کرتا، کہ ٹوٹے ہووے دل سے آنا ہو گا. 

یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا


Friday, August 31, 2012

نیند دل اور وقت


بچپن میں نیند آتی ہے
وقت بھی ہوتا ہے
مگر سونے کو دل نہیں چاہتا

جوانی میں نیند آتی ہے
سونے کو دل بھی چاہتا ہے
مگر وقت نہیں ہوتا

بڑھاپے میں سونے کو دل چاہتا ہے
وقت بھی ہوتا ہے
مگر نیند نہیں‌آتی

Wednesday, August 29, 2012

قانون اضداد

بابا ! 
جی بیٹا ؟

دنیا میں غمی  کیوں ہے ؟
بیٹا ، اگر غمی  نہ ہوتی تو خوشی بھی نہ ہوتی !

دنیا میں برائی کیوں ہے ؟
بیٹا ، اگر برائی نہ ہوتی تو اچھائی بھی نہ ہوتی !

دنیا میں بد حالی کیوں ہے ؟
بیٹا ، اگر بد حالی نہ ہوتی تو خوش حالی بھی نہ ہوتی !

قدرت کا یہ  قانون ہے، ہر چیز کی پہچان اسکی ضد سے ہے، اسے قانون اضداد کہتے ہیں.

بد صورتی ، خوبصورتی 
مشکل ، آسانی 
اندھیرا ، اجالا 
رات ، دیں
غمی ،  خوشی 
برائی ، اچھائی 

اگر بد حالی نہ ہوتی تو خوش حالی بھی نہ ہوتی
اگر غمی  نہ ہوتی تو خوشی بھی نہ ہوتی
اگر بد حالی نہ ہوتی تو خوش حالی بھی نہ ہوتی

Tuesday, July 31, 2012

Fatima Jinnah


Fatima Jinnah
Miss Fatima Jinnah, younger sister of Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah, was born in 1893. Of his seven brothers and sisters, she was the closest to the Quaid. Jinnah became her guardian upon the death of their father in 1901. Due to her brother’s keen interest, and despite strident family opposition, Miss Fatima received excellent early education. She joined the Bandra Convent in 1902. In 1919 she got admitted to the highly competitive University of Calcutta where she attended the Dr. Ahmad Dental College. After she qualified, Jinnah went along with her idea of opening a dental clinic in Bombay and helped her set it up in 1923.
Miss Fatima Jinnah initially lived with her brother for about eight years till 1918, when he got married to Rutanbai. Upon Rutanbai’s death in February 1929, Miss Jinnah wound up her clinic, moved into Jinnah’s bungalow, and took charge of his house; thus beginning the life-long companionship that lasted till Jinnah’s death on September 11, 1948.
In all, Miss Jinnah lived with her brother for about 28 years, including the last 19 tiring years of his life. The Quaid would discuss various problems with her, mostly at the breakfast and dinner table. Paying tribute to her sister, the Quaid once said, “My sister was like a bright ray of light and hope whenever I came back home and met her. Anxieties would have been much greater and my health much worse, but for the restraint imposed by her”.
Miss Jinnah not only lived with her brother but also accompanied him on his numerous tours. In 1932, she joined him in London when he remained there after the Second Round Table Conference.
When the All India Muslim League was being organized, Miss Fatima Jinnah was taken on as a member of the Working Committee of the Bombay Provincial Muslim League, and worked in that capacity until 1947.
In March 1940, she attended the Lahore session of the Muslim League. Fatima was convinced that the Hindus intended to subjugate and dominate the Muslims completely. It was primarily due to her initiative that the All India Muslim Women Students Federation was organized in February 1941 at Delhi.
During the transfer of power in 1947, she was an inspiration to Muslim women. She formed the Women’s Relief Committee, which later formed the nucleus for the All Pakistan Women’s Association. She also played a significant role in the settlement of refugees in the new state of Pakistan.
Despite her old age, she continued to help social and educational associations. During the Quaid’s illness, she remained passionately attached to him. After his death, she often issued important statements on important occasions, as a reminder to the nation of the ideals on which Pakistan had been established.
In 1965, Miss Fatima Jinnah ran for President as a candidate of the Combined Opposition Party. Even a conservative party like the Jamaat-i-Islami accepted her as a woman presidential candidate. Miss Jinnah’s greatest advantage was that she was sister of the Founder of Pakistan and had been detached from the political conflicts that had plagued Pakistan after the Founder’s death. The sight of this dynamic lady moving in the streets of big cities, and even in the rural areas of a Muslim country, was both moving and unique. She proclaimed her opponent presidential candidate, Ayub Khan, a dictator. Miss Jinnah’s line of attack was that by coming to terms with India on the Indus Water dispute, Ayub had surrendered control of the rivers over to India. Her campaign generated such tremendous public enthusiasm that most of the press agreed that if the contest were by direct election, she would have won against Ayub.
It seems that the thought of doing a biography of her illustrious brother came to Miss Jinnah about the time when Hector Bolitho’s “Jinnah Creator of Pakistan” was first published in 1954. It was felt that Bolitho had failed to bring out the political aspects of Jinnah’s life in his book. Miss Jinnah started looking for a Pakistani author to do a biography of the Quaid. G. Allana was her choice. G. Allana assisted Miss Jinnah on the assignment but they parted company due to reasons undisclosed. Later both carried on their independent works on Jinnah. Her book “My Brother” was published by the Quaid-i-Azam Academy in 1987.
The people of Pakistan hold Miss Fatima in high esteem. Due to her selfless work for Pakistan, the nation conferred upon her the title of Madar-i-Millat, or “Mother of the Nation”. She died in Karachi on July 8, 1967. Some historians indicate that the date of her death was actually July 2, 1967.
Following are excerpts from some of her statements.
Madar-i-Millat’s Message to the Nation on Eid-ul-Azha, 1967: “The immediate task before you is to face the problem and bring the country back on the right path with the bugles of Quaid-i-Azam’s message. March forward under the banner of star and the crescent with unity in your ranks, faith in your mission and discipline. Fulfill your mission and a great sublime future awaits your enthusiasm and action. Remember: ‘cowards die many times before death; the valiant never taste death but once.’ This is the only course of action which suits any self-respecting people and certainly the Muslim Nation.”
Madar-i-Millat’s Message to the Nation on Eid-ul-Azha, 1965: “Let us sink all our differences and stand united together under the same banner under which we truly achieved Pakistan and let us demonstrate once again that we can, united, face all dangers in the cause of glory of Pakistan, the glory that the Quaid-i-Azam envisaged for Pakistan.”
Madar-i-Millat’s Message to the Nation on Quaid-i-Azam’s Birthday, 25 December, 1963: “The movement of Pakistan which the Quaid-i-Azam launched was ethical in inspiration and ideological in content. The story of this movement is a story of the ideals of equality, fraternity and social and economic justice struggling against the forces of domination, exploitation, intolerance and tyranny”.

Thursday, July 19, 2012

علاجِ بالغذا

علاجِ بالغذا

ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﺎﻡ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮ ﻏﺬﺍ ﺳﮯ

ﻭﮨﺎﮞ ﺗﮏ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﺩﻭﺍ ﺳﮯ

ﺍﮔﺮ ﺧﻮﮞ ﮐﻢ ﺑﻨﮯ، ﺑﻠﻐﻢ ﺯﯾﺎﺩﮦ

ﺗﻮ ﮐﮭﺎ ﮔﺎﺟﺮ، ﭼﻨﮯ ، ﺷﻠﻐﻢ ﺯﯾﺎﺩﮦ

ﺟﮕﺮ ﮐﮯ ﺑﻞ ﭘﮧ ﮨﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺟﯿﺘﺎ

ﺍﮔﺮ ﺿﻌﻒ ﺟﮕﺮ ﮨﮯ ﮐﮭﺎ ﭘﭙﯿﺘﺎ

ﺟﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ

ﻣﺮﺑّﮧ ﺁﻣﻠﮧ ﮐﮭﺎ ﯾﺎ ﺍﻧﻨﺎﺱ

ﺍﮔﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻌﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍﻧﯽ

ﺗﻮ ﭘﯽ ﻟﯽ ﺳﻮﻧﻒ ﯾﺎ ﺍﺩﺭﮎ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ

ﺗﮭﮑﻦ ﺳﮯ ﮨﻮﮞ ﺍﮔﺮ ﻋﻀﻼﺕ ﮈﮬﯿﻠﮯ

ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍََ ﺩﻭﺩﮪ ﮔﺮﻣﺎ ﮔﺮﻡ ﭘﯽ ﻟﮯ

ﺟﻮ ﺩﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮ ﮔﻼ ﻧﺰﻟﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ

ﺗﻮ ﮐﺮ ﻧﻤﮑﯿﻦ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻏﺮﺍﺭﮮ

ﺍﮔﺮ ﮨﻮ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮯ ﮐﻞ

ﺗﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺳﮯ ﻣﺴﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﻤﮏ ﻣَﻞ

ﺟﻮ ﻃﺎﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ

ﺗﻮ ﻣﺼﺮﯼ ﮐﯽ ﮈﻟﯽ ﻣﻠﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﭼﻮﺱ

ﺷﻔﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﮭﺎﻧﺴﯽ ﺳﮯ ﺟﻠﺪﯼ

ﺗﻮ ﭘﯽ ﻟﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﮨﻠﺪﯼ

ﺍﮔﺮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﻭﮮ

ﺗﻮ ﺳﺮﺳﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﯿﻞ ﭘﮭﺎﺋﮯ ﺳﮯ ﻧﭽﻮﮌﮮ

ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﺎﻟﮯ

ﺗﻮ ﺩﮐﮭﻨﯽ ﻣﺮﭺ ﮔﮭﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎ ﻟﮯ

ﺗﭗ ﺩﻕ ﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺭﮨﺎﺋﯽ

ﺑﺪﻝ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮔّﻨﺎ ﭼﻮﺱ ﺑﮭﺎﺋﯽ

ﺩﻣﮧ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻏﺬﺍ ﺑﮯ ﺷﮏ ﮨﮯ ﺍﭼﮭﯽ

ﮐﮭﭩﺎﺋﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮭﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ

ﺍﮔﺮ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﻟﮕﮯ ﺟﺎﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺩﯼ

ﺗﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﮉﮮ ﮐﯽ ﺯﺭﺩﯼ

ﺟﻮ ﺑﺪ ﮨﻀﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﻓﺎﻗﮧ

ﺗﻮ ﺩﻭ ﺍِﮎ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺗﻮ ﻓﺎﻗﮧ

Tuesday, July 3, 2012

30 Most Popular Herbs for Natural Medicine




Herbs are a wondrous thing. They not only assist in flavoring dishes and filling the air with delightful aromas, but they also hold medicinal properties that promote healing. Those of you who have herbal gardens of your own, no doubt have a few of these herbal friends already planted. Many of the plants listed below should be in every garden. However, it seems that there are a few more worth mentioning.

Our Herbal Friends

  1. Aloe Vera – Antibacterial, anti-fungal, antiviral, wound and burn healer, natural laxative, soothes stomach, helps skin disorders.
  2. Basil – Powerful antispasmodic, antiviral, anti-infectious, antibacterial, soothes stomach.
  3. Black Cohosh – Relieves menopausal hot flashes, relieves menstrual cramps, helps circulatory and cardiovascular disorders, lowers blood pressure, reduces cholesterol, useful for nervousness and stress. Note: Do not use during pregnancy.
  4. Black Walnut – Good for eliminating parasites, good for fungal infections, good for warts and poison ivy, aids digestion.
  5. Cinnamon – It has been proven that 99.9% of viruses and bacteria can not live in the presence of cinnamon. So it makes a great antibacterial and antiviral weapon.
  6. Cayenne- Catalyst for other herbs, useful for arthritis and rheumatism (topically and internally), good for colds, flu viruses, sinus infection and sore throat, useful for headache and fever, aids organs (kidneys, heart, lungs, pancreas, spleen and stomach, increase thermogenesis for weight loss.
  7. Clove Bud – Improves the immune system, they are also an antioxidant and doubles as an antibacterial and antimicrobial fighter.
  8. Cypress – The therapeutic properties of cypress oil are astringent, antiseptic, antispasmodic, deodorant, diuretic, haemostatic, hepatic, styptic, sudorific, vasoconstrictor, respiratory tonic and sedative.
  9. Dandelion – Helpful for PMS, good for menopause, increases ovarian hormones.
  10. Echinacea (coneflower) – Boosts white blood cell production, immune system support, anti-inflammatory and antiviral properties, good for colds, flu and infection. Note: Use no more than two weeks at a time. Do not use if you are allergic to sunflowers or related species.
  11. Eucalyptus – Anti-infectious, antibacterial and antiviral.
  12. Garlic – Helps fight infection, detoxifies the body, enhances immunity, lowers blood fats, assists yeast infections, helps asthma, cancer, sinusitis, circulatory problems and heart conditions.
  13. German Chamomile – Helps stress, anxiety and insomnia, good for indigestion, useful for colitis and most digestive problems, effective blood cleanser and helps increase liver function and supports the pancreas. Improves bile flow from the liver, it is good for healing of the skin that might come from a blistering chemical agent.
  14. Geranium – Dilates bile ducts for liver detoxification, antispasmodic, stops bleeding, anti-infectious, antibacterial.
  15. Ginger – Helps nausea, motion sickness and vomiting, useful for circulatory problems, good for indigestion, and is also an effective antioxidant.
  16. Lavender – Assists with burns, antiseptic, used as a stress reliever, good for depression, aids skin health and beauty.
  17. Lemon – Is known for its antiseptic properties, Essential Science Publishing says that: According to Jean Valnet, M.D. the vaporized essence of lemon can kill meningococcal bacteria in 15 minutes, typhoid bacilli in one hour, Staphylococcus aureus in two hours and Pneumococcus bacteria within three hours. Lemon also improves micro-circulation, promotes white blood cell formation, and improves immune function.
  18. Marjoram – Anti-infectious, antibacterial, dilates blood vessels, regulates blood pressure, soothes muscles.
  19. Marshmallow – Aids bladder infections, diuretic (helps fluid retention), helps kidney problems, soothes coughs, sore throats, indigestion, and as a topical agent it is said to be anti-inflammatory, antimicrobial and wound-healing.
  20. Melissa – Assists in issues with the nervous system, blisters, and has antimicrobial properties.
  21. Mullein – Can be used as a laxative, good for asthma and bronchitis, useful for difficulty breathing, helps hay fever.
  22. Myrrh – Anti-infectious, antiviral, soothes skin conditions and supports immune system. Also an antispasmodic that helps to reduce spasming due to spasms caused by nerve agents.
  23. Oregano – is a powerful antibiotic and has been proven to be more effective in neutralizing germs than some chemical antibiotics. It has been effective against germs  like Staphylococcus aureas, Escherichia coli, Yersinia enterocolitica and Pseudomonas aeruginosa.
  24. Pine – Antidiabetic, cortisone-like, severe infections, hypertensive
  25. Rosemary – Antiseptic, Antibacterial, Cleansing and detoxes the body. Supports the liver and combats cirrhosis.
  26. Rosewood – Anti-infectious, antibacterial, and antiviral.
  27. Sage – Used in anxiety, nervous disorders, as astringent, in abdominal disorders, anti inflammatory.
  28. Spearmint – To calm the Nervous System, aide with Nerve Agents.
  29. Tea Tree – Disinfectant, antibacterial, anti-fungal, burns, good for all skin conditions.
  30. Thyme – Effective against Anthrax and Tuberculosis

Tuesday, June 19, 2012

گھوڑے کی پیٹھ

عنوان دیکھ کر عام قاری راقم الحروف کی دماغی صحت پر شُبہ کرے گا کہ “گھوڑے کی پیٹھ کی ریلوے اور خلائی جہاز سے کیا نسبت ؟” لیکن حقیقت جاننے کے بعد شاید وہ اُن(٭) کی عقل پر حیران ہو جن کے صبح شام قصیدے پڑھے جاتے ہیں
(٭ امریکیوں)
خلائی جہاز کو لانچِنگ پیڈ پر اِستادہ تو دیکھا ہی ہو گا ۔ اس کے ایندھن (fuel) کے ٹینک کے دونوں اطراف 2 بڑے بڑے بُوسٹر لگے ہوتے ہیں ۔ یہ ریاست اُوتاہ (Utah) میں ایک تھیوکال (Thiokol) نامی کمپنی بناتی ہے

ان بُوسٹروں کو ڈیزائن کرنے والے انجنیئروں نے ضرور سوچا ہو گا کہ انہیں کچھ بڑا بنایا جائے لیکن مجبوری آڑے آ گئی ہو گی کیونکہ انہیں فیکٹری سے لانچ والی جگہ ٹرین پر لے جایا جاتا ہے ۔ فیکٹری سے لانچ والی جگہ جانے کیلئے ریلوے لائن پہاڑ کے اندر بنے ایک غار میں سے گذرتی ہے ۔ اس غار کی چوڑائی ریلوے لائن سے کچھ زیادہ ہے ۔ چنانچہ انجنیئرز کو بُوسٹرز کی چوڑائی اسی حساب سے رکھنا پڑی ۔ ریلوے کی چوڑائی 4 فٹ ساڑھے 8 انچ ہے جو نہائت نامعقول محسوس ہوتی ہے

سوال ۔ ایسی چوڑائی کیوں رکھی گئی ؟
جواب ۔ اسلئے کہ انگلستان سے آئے ہوئے لوگوں نے یہ ریلوے لائن ڈیزائن کی تھی کیونکہ انگلستان میں یہ ایسے ہی بنائی جاتی تھی

سوال ۔ انگلستان میں ایسے بے تُکے سائز کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟
جواب ۔ کیونکہ پہلی ریلوے اُن ہی لوگوں نے بنائی جنہوں نے ٹرام وے  بنائی تھی ۔ اسی لئے اُنہوں نے ریلوے کا سائز وہی رکھا جو ٹرام وے کا تھا
سوال ۔ ٹرام وے کیلئے اُنہوں نے ایسا فضول سائز کیوں اختیار کیا ؟
جواب ۔ کیونکہ اُنہوں نے وہی اوزار استعمال کئے تھے جو وہ بگی بنانے کیلئے استعمال کرتے تھے

سوال ۔ بگی کے پہیوں کے درمیان ایسا فاصلہ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ اگر وہ اس کی بجائے مختلف فاصلہ رکھتے تو انگلستان کے کئی علاقوں میں بگی کے پہیئے ٹوٹنے کا خدشہ تھا کیونکہ وہاں پرانے زمانے کی سڑکیں تھیں جن پر دو متوازی گہری پگڈنڈیاں بنی ہوئی تھیں

سوال ۔ یہ پگڈنڈیاں کس نے بنائی تھیں ؟
جواب ۔ انگلستان سمیت یورپ میں رومیوں نے سڑکیں بنوائیں تھیں ۔ سڑکیں کچی تھیں اور ان پر رومی فوجیوں کے رتھ چلنے سے گہری پگڈنڈیاں بن گئیں ۔ یہ رتھ رومی حکومت کیلئے بنائے گئے تھے اسلئے سب کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ ایک ہی تھا اور یہ فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ تھا

سوال ۔ لیکن آخر رتھ کے پہیوں کا درمیانی فاصلہ 4 فٹ ساڑھے 8 انچ کیوں رکھا گیا تھا ؟
جواب ۔ کیونکہ رتھ کو 2 گھوڑے چلاتے تھے اور پہیوں کا درمیانی فاصلہ 2 گھوڑوں کی پیٹھ کی کُل چوڑائی سے کچھ زیادہ رکھا گیا تھا جو 4 فٹ ساڑھے 8 انچ بنتا تھا

چنانچہ ریلوے اور خلائی جہاز جیسے اہم منصوبوں کیلئے گھوڑے کی پیٹھ اہم بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر گھوڑے کی پیٹھ کا ذکر آئے تو اسے نظر انداز نہ کیجئے
پس ثابت ہو ا کہ سائنسدان خواہ کتنی ہی ترقی کر جائیں بے بس ہیں نوکر شاہی  کے آگے جو تبدیلی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہی ہے

  مصنف : افتخار اجمل بھوپال

Thursday, May 31, 2012

Uniform


جیسے ہی میں نے بینک کے سامنے گاڑی کھڑی کی ایک آٹھ نو سال کا بچہ ہاتھ میں کپڑا لیے کہیں سے نمودار ہوگیا۔

صاحب گاڑی صاف کردوں !
نہیں مجھے جلدی ہے۔

بس جیسے ہی آپ بینک سے باہر آئیں گے گاڑی صاف ملے گی !

اچھا کردو۔۔۔۔لیکن تم نے تو سکول کی یونیفارم پہنی ہوئی ہے ۔۔۔تمہیں تو اس وقت کلاس میں ہونا چاہییے، یہ تم یہاں سڑک پر کیا کررہے ہو۔

جی میں سکول میں نہیں پڑھتا، یہ یونیفارم تو ایک میڈم نے دی ہے۔ان کا بچہ پہنتا تھا۔اب پرانی ہوگئی ہے نا !

تمہیں میڈم نے اور شرٹ کیوں نہیں دی ؟
نہیں جی ان کے پاس تو دو تین پرانی شرٹیں تھیں۔انہوں نے کہا اس میں سے ایک لے لو باقی دو میں دوسرے بچوں کو دوں گی۔ تو میں نے یونیفارم والی شرٹ لے لی !

لیکن کیا فائدہ ۔۔۔تم تو سکول میں نہیں پڑھتے ، دوسری شرٹ لے لیتے۔

نہیں جی۔۔۔ یہ مجھے اچھی لگتی ہے۔اسے پہن کر لگتا ہے جیسے میں بھی سکول جارہا ہوں ۔

Tuesday, May 29, 2012

طلوع اسلام


دليل صبح روشن ہے ستاروں کي تنک تابي
افق سے آفتاب ابھرا ،گيا دور گراں خوابي
عروق مردئہ مشرق ميں خون زندگي دوڑا
سمجھ سکتے نہيں اس راز کو سينا و فارابي
مسلماں کو مسلماں کر ديا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دريا ہي سے ہے گوہر کي سيرابي
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکماني، ذہن ہندي، نطق اعرابي
اثر کچھ خواب کا غنچوں ميں باقي ہے تو اے بلبل!
''نوا را تلخ تر مي زن چو ذوق نغمہ کم يابي''
تڑپ صحن چمن ميں، آشياں ميں ، شاخساروں ميں
جدا پارے سے ہو سکتي نہيں تقدير سيمابي
وہ چشم پاک بيں کيوں زينت برگستواں ديکھے
نظر آتي ہے جس کو مرد غازي کي جگر تابي
ضمير لالہ ميں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہيد جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا
خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا
کتاب ملت بيضا کي پھر شيرازہ بندي ہے
يہ شاخ ہاشمي کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا
ربود آں ترک شيرازي دل تبريز و کابل را
صبا کرتي ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا
اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتي ہے سحر پيدا
جہاں باني سے ہے دشوار تر کار جہاں بيني
جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتي ہے نظر پيدا
ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے
بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
نوا پيرا ہو اے بلبل کہ ہو تيرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک ميں شاہيں کا جگر پيدا
ترے سينے ميں ہے پوشيدہ راز زندگي کہہ دے
مسلماں سے حديث سوز و ساز زندگي کہہ دے
خدائے لم يزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
يقيں پيدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نيلي فام سے منزل مسلماں کي
ستارے جس کي گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں فاني ، مکيں آني، ازل تيرا، ابد تيرا
خدا کا آخري پيغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تيرا
تري نسبت براہيمي ہے، معمار جہاں تو ہے
تري فطرت اميں ہے ممکنات زندگاني کي
جہاں کے جوہر مضمر کا گويا امتحاں تو ہے
جہان آب و گل سے عالم جاويد کي خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئي وہ ارمغاں تو ہے
يہ نکتہ سرگزشت ملت بيضا سے ہے پيدا
کہ اقوام زمين ايشيا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
ليا جائے گا تجھ سے کام دنيا کي امامت کا
يہي مقصود فطرت ہے، يہي رمز مسلماني
اخوت کي جہاں گيري، محبت کي فراواني
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت ميں گم ہو جا
نہ توراني رہے باقي، نہ ايراني، نہ افغاني
ميان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
ترے بازو ميں ہے پرواز شاہين قہستاني
گمان آباد ہستي ميں يقيں مرد مسلماں کا
بياباں کي شب تاريک ميں قنديل رہباني
مٹايا قيصر و کسري کے استبداد کو جس نے
وہ کيا تھا، زور حيدر، فقر بوذر، صدق سلماني
ہوئے احرار ملت جادہ پيما کس تجمل سے
تماشائي شگاف در سے ہيں صديوں کے زنداني
ثبات زندگي ايمان محکم سے ہے دنيا ميں
کہ الماني سے بھي پائندہ تر نکلا ہے توراني
جب اس انگارئہ خاکي ميں ہوتا ہے يقيں پيدا
تو کر ليتا ہے يہ بال و پر روح الاميں پيدا
غلامي ميں نہ کام آتي ہيں شمشيريں نہ تدبيريں
جو ہو ذوق يقيں پيدا تو کٹ جاتي ہيں زنجيريں
کوئي اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتي ہيں تقديريں
ولايت ، پادشاہي ، علم اشيا کي جہاں گيري
يہ سب کيا ہيں، فقط اک نکتہء ايماں کي تفسيريں
براہيمي نظر پيدا مگر مشکل سے ہوتي ہے
ہوس چھپ چھپ کے سينوں ميں بنا ليتي ہے تصويريں
تميز بندہ و آقا فساد آدميت ہے
حذر اے چيرہ دستاں! سخت ہيں فطرت کي تغريريں
حقيقت ايک ہے ہر شے کي، خاکي ہو کہ نوري ہو
لہو خورشيد کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چيريں
يقيں محکم، عمل پيہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگاني ميں ہيں يہ مردوں کي شمشيريں
چہ بايد مرد را طبع بلندے ، مشرب نابے
دل گرمے ، نگاہ پاک بينے ، جان بيتابے
عقابي شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق ميں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دريا زير دريا تيرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے ، جو ، بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہيں، کيميا پر ناز تھا جن کو
جبينيں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسير گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پيام زندگي لايا
خبر ديتي تھيں جن کو بجلياں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پير حرم کي کم نگاہي سے
جوانان تتاري کس قدر صاحب نظر نکلے
زميں سے نوريان آسماں پرواز کہتے تھے
يہ خاکي زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے
جہاں ميں اہل ايماں صورت خورشيد جيتے ہيں
ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے
يقيں افراد کا سرمايہ تعمير ملت ہے
يہي قوت ہے جو صورت گر تقدير ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے، اپني انکھوں پر عياں ہو جا
خودي کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بياں ہو جا، محبت کي زباں ہو جا
يہ ہندي، وہ خراساني، يہ افغاني، وہ توراني
تو اے شرمندئہ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودئہ رنگ ونسب ہيں بال و پر تيرے
تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
خودي ميں ڈوب جا غافل! يہ سر زندگاني ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصاف زندگي ميں سيرت فولاد پيدا کر
شبستان محبت ميں حرير و پرنياں ہو جا
گزر جا بن کے سيل تند رو کوہ و بياباں سے
گلستاں راہ ميں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کي نہيں ہے انتہا کوئي
نہيں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت ميں نوا کوئي
ابھي تک آدمي صيد زبون شہرياري ہے
قيامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاري ہے
نظر کو خيرہ کرتي ہے چمک تہذيب حاضر کي
يہ صناعي مگر جھوٹے نگوں کي ريزہ کاري ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرو مندان مغرب کو
ہوس کے پنچہ خونيں ميں تيغ کارزاري ہے
تدبر کي فسوں کاري سے محکم ہو نہيں سکتا
جہاں ميں جس تمدن کي بنا سرمايہ داري ہے
عمل سے زندگي بنتي ہے جنت بھي، جہنم بھي
يہ خاکي اپني فطرت ميں نہ نوري ہے نہ ناري ہے
خروش آموز بلبل ہو ، گرہ غنچے کي وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاري ہے
پھر اٹھي ايشيا کے دل سے چنگاري محبت کي
زميں جولاں گہ اطلس قبايان تتاري ہے
بيا پيدا خريدارست جان ناتوانے را
''پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے را''
بيا ساقي نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
کشيد ابر بہاري خيمہ اندر وادي و صحرا
صداے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
سرت گردم تو ہم قانون پيشيں سازدہ ساقي
کہ خيل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
کنار از زاہداں برگيروبے باکانہ ساغر کش
پس از مدت ازيں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
بہ مشتاقاں حديث خواجہ بدر و حنين آور
تصرف ہاے پنہانش بچشمم آشکار آمد
دگر شاخ خليل از خون ما نم ناک مي گرد
بيازار محبت نقد ما کامل عيار آمد
سر خاک شہيدے برگہاے لالہ مي پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد
''بيا تا گل بيفشانيم و مے در ساغر اندازيم
فلک را سقف بشگافيم و طرح ديگر اندازيم''



Friday, May 18, 2012

ماں - جلے ہوئے بسکٹ

جب میں چھوٹا ہوا کرتا تھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امی کو تو بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ جب بھی انہیں موقع اور وقت ملے تو مجھے کوئی نا کوئی اچھی سی چیز بنا کر کھلا دیا کریں۔

اور اس رات کو تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا جب ایک لمبے تھکا دینے والے دن کے اختتام پر اور یقیناً تھکن سے چور میری امی نے شام کے کھانے کیلئے میز پر ہمارے سامنے میری پسندیدہ ڈش انڈوں کی پڈنگ اور ایک ٹرے میں جلے ہوئے بسکٹ رکھے تھے۔ میں نے تو دیکھ ہی لیا تھا مگر مجھے یاد ہے کہ میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی تو محسوس کرے کہ ہمارے سامنے رکھے ہوئے بسکٹ جلے ہوئے ہیں۔ مگر ابو نے تو امی کو بس مسکرا کر دیکھا اور انہیں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو کہا، پھر مجھ سے پوچھا کہ میرا سکول میں آج کا دن کیسا گزرا تھا؟ یہ تو مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے اپنا سکول میں گزرے دن کے بارے میں اُنکو کیا جواب دیا تھا مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں نے دیکھا تھا کہ ابو بسکٹ ایسے کھا رہے تھے کہ جیسے وہ جلے ہوئے ہوں ہی نہیں- بلکہ اس دن تو ابو نے اپنی سابقہ عادت سے بھی دو یا تین بسکٹ زیادہ ہی کھائے تھے۔

کھانے کی میز سے اُٹھ جانے کے بعد تجسس مجھے بے چین کر رہا تھا کہ آخر کار میں نے سُن ہی لیا امی کہہ رہی تھی، مجھے افسوس ہے کہ آج اوون میں بسکٹ جل گئے تھے۔ اور ابو کہہ رہے تھے نہیں تو، اچھے خاصے تو تھے، ویسے بھی مجھے جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں۔ اور جب ابو اپنے کمرے میں جا چکے اور امی میز سے برتن اُٹھا رہی تھیں تو میں چپکے سے ابو کے کمرے میں گیا جہاں ابو پلنگ پر دراز ہو رہے تھے۔ میں نے ابو کو شب بخیر کہا اور پوچھا، ابو کیا آپ کو واقعی جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں؟

ابو نے مجھے بھی اپنے پلنگ پر اپنے ساتھ لٹا لیا اور مجھے کہا؛ آج تمہاری امی نے بہت سے کام کیئے تھے، کپڑے دھونے سے لیکر برتن دھونے، گھر کی صفائی اور کھانا پکانے تک۔ وہ یقیناً اس سارے کام سے بہت زیادہ تھکی ہوئی ہیں اور ویسے بھی اگر انسان تھوڑے سے جلے ہوئے بسکٹ کھا بھی لے تو اُسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

ہماری زندگی بھی بہت سی غیر مثالی باتوں، کاموں، چیزوں اور لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور میں بھی تو لگ بھگ انہی جیسا ہی ایک خطاکار اور غلطیاں کرنے والا انسان ہوں۔ اور تو اور، لوگوں کو اُن کے اچھے دنوں پر مبارکباد تک کہنا بھی بھول جاتا ہوں۔

اس گزرتے وقت سے جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی خطائیں اور غلطیاں قبول کرنے کی عادت کو سیکھنا چاہیئے۔ ہمیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے اختلافات، کمیوں اور کوتاہیوں سمیت قبول کرنا چاہیئے۔ اور یہی بات تعلقات کو مضبوط اور رشتوں کو استوار رکھنے کی چابی ہے۔

میری آپ کیلئے خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں اچھے اور برے کی تمیز تو ضرور پیدا کیجیئے اور اچھائیوں کو پاس رکھتے ہوئے بری اور بدصورت چیزوں کو محو کرتے رہیئے مگر اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے اور یقین کے ساتھ، کیونکہ آخر میں صرف اُسی کی ذات ہی تو ہے جو آپ کے تعلقات پر جلے ہوئے بسکٹوں کو اثرانداز ہونے سے محفوظ رکھے گی۔ اس کہانی کو ہم اپنی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات کیلئے استعمال کر سکتے ہیں چاہے وہ میاں بیوی کے درمیاں تعلقات ہوں یا یاری اور دوستی کے تعلق۔ یاد رکھئیے گا کہ خوشیوں کی چابی ہمیشہ آپکے ہی پاس ہو نا کہ کسی اور کی جیب میں۔
اور ہمیشہ ایک دوسرے کو بسکٹ وغیرہ دیتے لیتے رہیئے خواہ وہ تھوڑے سے جلے ہوئے ہی کیوں ناں ہوں۔
(مآخوذ)

thanks to hajisahb from china