Friday, November 9, 2012

Iqbal day (Allama Iqbal's 135th birthday)

آج صبح ٹی وی پر مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب دیکھ رہا تھا، نیوی کا چاق و چوبک دستہ اپنی ذمہ داری نبھانے کیلئے تیار تھا، پس پردہ اقبال کی شاعری پر منتخب شدہ نظمیں چل رہی تھیں جو ایک جزبہ جگا رہی تھیں۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ لاہور میں ہوتے ہوئے اگر مزار اقبال پر حاضری نہ دی تو۔۔۔ سال میں صرف ایک مرتبہ ۔۔۔ بس۔۔۔

چند روز قبل انٹرنیشنل قبال سوسائٹی کے ایک کارکن کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہو چکا تھا، پورے ہفتہ کی دفتری تھکان دور کرنے کے کیلئے چھٹی کا انتظار، سواری مناسب بندوبست نہ ہونا، سڑکوں کے  زیر تعمیر کام، دل نہیں چاہ رہا تھا کہیں جانے کو، پھر سوچا اقبال کے پوتے جناب منیب اقبال سے شاید ہاتھ ملا نے کا موقع مل جائے، یا ایک دو تصاویر...

یہی سوچتے ہوئے ایک دوست کو فون کیا اسنے دفتری مصروفیت کا بہانہ بنا دیا، بھلا عام تعطیل اور دفتر ؟ پھر ایک اور دوست کو فون ۔۔۔ بات بن گئی، فیصل بخش کے ساتھ پروگرام طے پا گیا۔

جمعہ سے کچھ دیر پہلے گھر سے نکلے اور مناسب وقت پر حضرت علی ہجویری کے مزار سے ملحقہ مسجد میں پہنچے۔ جمعہ کے بعد مزار پر فاتحہ پڑھی اور آگے روانہ ہو گئے۔ تقریبا تین بجے ہم شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے درمیان واقع اقبال کے مزار پر پہنچے۔

وہاں ایک جم غفیر موجود تھا، لوگ ٹولیوں کی شکل میں مزار میں جاتے اور فاتحہ پڑھ کر واپس آتے، یہ سلسلہ صبح شروع ہوا تو مغرب کے بعد تک جاری رہا۔  سامنے گراؤنڈ میں سو سائٹی کی جانب سے سٹیج تیار کیا گیا تھا، مقررین باری باری سٹیج پر آ کر اقبال کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

سوسائٹی کے صدر نے کہا ہمیں صرف یہ معلوم ہے کہ کوئی فائدہ مند چیز ہے جو ہمیں حا صل کرنی ہے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اقبال کا پیغام ہے جو ہمیں سمجھنا بھی ہے اور اپنے اوپر لاگو بھی کرنا ہے۔

تھوڑی دیر میں جناب منیب اقبال بھی تشریف لے آئے،  آتے ہی انہوں نے پہلے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ پڑھی، ایک بچے نے منیب بھائی کی درخواست پر یہ نظم سنائی۔

خودي کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
                                          خودي ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ
يہ دور اپنے براہيم کي تلاش ميں ہے
                                          صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
کيا ہے تو نے متاع غرور کا سودا
                                          فريب سود و زياں ، لا الہ الا اللہ
يہ مال و دولت دنيا، يہ رشتہ و پيوند
                                          بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ
خرد ہوئي ہے زمان و مکاں کي زناري
                                          نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ
يہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند
                                          بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہيں جماعت کي آستينوں ميں
                                          مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ

لوگ منیب اقبال کا بہت بیچینی سے انتظار کر رہے تھے، کہ انکو سنیں۔ وہ سٹیج پر آئے اور اقبال کے واقعات اور شعر سنائے، اسکے بعد رات تک اقبال کے مداحوں کو آٹوگراف دیتے رہے۔

 سرشک چشم مسلم ميں ہے نيساں کا اثر پيدا
                                         خليل اللہ کے دريا ميں ہوں گے پھر گہر پيدا
کتاب ملت بيضا کي پھر شيرازہ بندي ہے
                                         يہ شاخ ہاشمي کرنے کو ہے پھر برگ و بر پيدا
ربود آں ترک شيرازي دل تبريز و کابل را
                                         صبا کرتي ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پيدا
اگر عثمانيوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کيا غم ہے
                                         کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتي ہے سحر پيدا
جہاں باني سے ہے دشوار تر کار جہاں بيني
                                         جگر خوں ہو تو چشم دل ميں ہوتي ہے نظر پيدا
ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے
                                         بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا

اور


 عقابي روح جب بيدار ہوتي ہے جوانوں ميں
                                         نظر آتي ہے اس کو اپني منزل آسمانوں ميں
نہ ہو نوميد ، نوميدي زوال علم و عرفاں ہے
                                         اميد مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں ميں
نہيں تيرا نشيمن قصر سلطاني کے گنبد پر
                                         تو شاہيں ہے ، بسيرا کر پہاڑوں کي چٹانوں ميں

Saturday, November 3, 2012

احسان کا پھندہ


جناب شیخ سعدی علیہ رحمۃ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کی پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی تو شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے۔
اس پر اس جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ وہ اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا، پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔
ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔