Sunday, February 5, 2012

ہم کس ڈگر پر ...

مجھ  میں ایک بری عادات ہے میں صبح نیند سے چھٹکارہ پانے کے لیے چند کے لیے منٹ ٹیلی وژن لگا لیتا ہوں، آج جب میں اٹھا تو حسب معمول چینلز بدلنے لگا اور ایک جگہ آ کر رک گیا. 

نجی چینل کا میزبان کیمرہ مین کے ساتھ مارکیٹ میں گھوم رہا تھا، اسکا حلیہ نیگرو جیسا تھا بڑے لانبے گھونگریالے بال ، کوئی اسکے منہ نہیں لگ رہا تھا. وہ راہگیروں سے پوچھ رہا تھا،  آپنے وہ فلم دیکھی ہے؟ آپنے وہ فلم دیکھی ہے؟

سوچی سمجھی ثقافتی  یلغار کے تحت ہمسایہ ملک کی فلمیں  کچھ عرصے سے ملک  بھر کے سنیما گھروں میں دکھائی جا رہی ہیں، جو کہ آزادی کے کچھ عرصہ بعد بند کر دی  گئیں تھیں. اسلامک سٹیٹ میں کھل عام غیر اسلامی  ثقافت دکھائی جا رہی ہے.

ایک رہ گیر سے اسنے پوچھا،  آپنے وہ فلم دیکھی ہے؟ راہگیر نے جواب دیا "ماشاللہ"! یہ  الفاظ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے. ہندی فلم کا نام ہی ہضم ہونے کا نہیں کہ اسکے لیے ماشااللہ کہا جائے. اور  وہ راہگیر سے کرید کرید کر سوالات پوچھ رہا تھا.

آپنے اس کو دیکھا؟ آپنے اسکا ڈانس دیکھا؟ آپنے اسکو  ریوائنڈ کر کر کے دیکھا؟ پھر اس ڈانس کے کلپس چینل پر دکھائے گئے. میڈیا کیا چاہتا ہے؟ کیا پاکستان میں ایسا ہونا چاہیے؟ کیا پاکستان اسی لیے لاکھوں قربنیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا؟ 

اب تو اسکولوں اور کالجوں میں موزیک کنسرٹس کی کھلی اجازت بھی دے دی گئی ہے، حالانکہ تین طالبات کی موت کے بعد کنسرٹس پر مکمل پابندی عائد ہونا چاہیے تھی.

ہم اقبال کے خواب کی تعبیر کو کہاں لیجا رہے ہیں،جسکو جناح نے  زندگی بھر کی محنت سے پورا کیا تھا کو توڑ نہیں رہے؟

No comments:

Post a Comment