دوست کی تعاریف ہمیشہ سے زیرے بحث رہی ہے ،دوست کبھی ہمسایوں ، کبھی اسکول کے ہم جماعتوں ، کبھی کالج کے تو کبھی دفتری رفیق کی صورت میں ظاہر ہوے. ہر دور میں دوست بھی بدلتے رہے اور دوستی کی تعریف بھی .
دوست آن باشد کہ گیرد دست دوست
بہادر شاہ ظفر تو یہ کہ گئے لیکن دوست کا ہاتھ پکڑا تو دشمن خوب ٹھکائی کرے گا، اس لیے دشمن کا ہاتھ پکڑ کر رکھنا چاہیے
ان کو میں پچھلے پانچ سال سے جانتا ہوں وہ اکثر وہ آس پاس نظر آے ، سلام دعا ہوتی رہی کبھی کبھار بحث مباحثہ بھی ہوا ، شکر ہے بات باتوں باتوں تک ہی رہی لاتوں تک نہیں پہنچی. کئی کئی گھنٹے ایک دوسرے کی سنتے اور اپنی کہتے رہے لیکن پیچھے نہ وہ ہٹے نہ ہم ، نظریاتی اختلافات کہاں نہیں ہوتے خیر اب وہ بڑی گرمجوشی سے ملتے ہیں.
چند سال قبل انھوں نے لکھنا شروع کیا ، نام سن کر دل پر بجلی سے گری. لیکن تحریر ہلکی پھلکی تھیں اچھی لگی دل کو بھی اور دماغ کو بھی ویسے دل اور دماغ کا آپس میں گہرا تعلق ہے . اگر دل پر بوجھ تو دماغ پر بھی بوجھل ، اور اگر دل ہلکا تو دماغ بھی تر و تازہ. لیکن ہمیشہ ایسا نہہیں ہوتا ، کیونکہ کبھی دل دماغ کی بات مان نے سے انکار کر دیتا ہےیا پھر کبھی دماغ آپکو سمجھاتا ہے کہ یہ نہ کرو وہ نہ کرو. دل اور دماغ کا یہ جھگڑا بعض اوقات سارا دن آپکو الجھن میں مبتلا رکھتا ہے. انکی اکثر تحریر دل کو ہلکا کرتیں ہیں تو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ ایسی بھی ہیں کہ پڑھ کر دماغ ہلکا ہونے لگتا ہے تو کمپیوٹر بند کرنا پڑتا ہے.
گفتگومیں مناسب انداز سے کرتے ہیں اور حسب ضرورت جگت بھی لگا دیتے ہیں لیکن دل کے برے نہیں ہیں.سرائکی خوب بولتے ہیں لیکن انگریزی میں مار کھاتے ہیں. جمع تفریک میں ماہر اور شطرنج کی بازی خوب لگاتے ہیں .ٹائیکواندومیں بھی کوئی بلٹ ولٹ ہے اور بوقت ضرورت استعمال کرسکتے ہیں. آجکل کسی کی تلاش میں سرگرداں اور نہایت بےچین ہیں اور مارے مارے پھرتے ہیں ، ستم ظریفی یہ کہ یہ خود بھی نہیں جانتے اسکو کہاں اور کیونکر ڈھونڈ پائیں . آپ سب سے گزارش ہے کہ دعا کریں انہیں جن کی تلاش ہے وہ جلد ملے تا کہ زندگی کے ان کھلے راز ان پر فشاں ہوں اور یہ ہم سب کو دیگ کھلا یں
اپنے من کی دنیا آباد کر اس سے دنیا کو شاد کر