Showing posts with label زندگی. Show all posts
Showing posts with label زندگی. Show all posts

Tuesday, January 17, 2012

اپنے من کی دنیا آباد کر اس سے دنیا کو شاد کر



دوست کی تعاریف ہمیشہ سے زیرے بحث رہی ہے ،دوست  کبھی ہمسایوں ، کبھی اسکول کے ہم جماعتوں ، کبھی کالج کے تو کبھی دفتری رفیق کی صورت میں ظاہر ہوے. ہر دور میں دوست بھی بدلتے رہے اور دوستی کی تعریف بھی .
دوست آن باشد کہ گیرد دست دوست
بہادر شاہ  ظفر تو یہ کہ گئے لیکن دوست کا ہاتھ پکڑا تو دشمن خوب ٹھکائی کرے گا، اس لیے دشمن کا ہاتھ پکڑ کر رکھنا چاہیے
ان کو میں پچھلے پانچ سال سے جانتا ہوں وہ اکثر وہ آس پاس نظر آے ، سلام دعا ہوتی رہی کبھی کبھار بحث مباحثہ بھی ہوا ، شکر ہے بات باتوں باتوں تک ہی رہی لاتوں تک نہیں پہنچی. کئی کئی گھنٹے ایک دوسرے کی سنتے اور اپنی کہتے رہے لیکن پیچھے نہ وہ ہٹے نہ ہم ، نظریاتی اختلافات کہاں نہیں ہوتے خیر اب وہ بڑی گرمجوشی سے ملتے ہیں.
 چند سال قبل انھوں نے لکھنا شروع کیا ، نام سن کر دل پر بجلی سے گری. لیکن تحریر ہلکی پھلکی  تھیں اچھی لگی دل کو بھی اور دماغ کو بھی ویسے دل اور دماغ کا آپس میں گہرا تعلق ہے . اگر دل پر بوجھ تو دماغ پر بھی بوجھل ، اور اگر دل ہلکا تو دماغ بھی تر و تازہ. لیکن ہمیشہ ایسا نہہیں ہوتا ، کیونکہ کبھی دل دماغ کی بات مان نے سے انکار کر دیتا ہےیا پھر کبھی دماغ آپکو سمجھاتا ہے کہ یہ نہ کرو وہ  نہ کرو. دل اور دماغ کا یہ جھگڑا بعض اوقات سارا دن آپکو الجھن میں مبتلا رکھتا ہے. انکی اکثر تحریر دل کو ہلکا کرتیں ہیں تو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ ایسی بھی ہیں کہ پڑھ کر دماغ ہلکا ہونے لگتا ہے  تو کمپیوٹر بند کرنا پڑتا ہے.
گفتگومیں مناسب انداز سے کرتے ہیں اور حسب ضرورت  جگت بھی لگا دیتے ہیں لیکن دل کے برے نہیں ہیں.سرائکی خوب بولتے ہیں لیکن انگریزی میں مار کھاتے ہیں. جمع تفریک میں ماہر اور شطرنج کی بازی خوب لگاتے ہیں .ٹائیکواندومیں بھی کوئی بلٹ ولٹ ہے اور بوقت ضرورت استعمال کرسکتے ہیں. آجکل کسی کی تلاش میں سرگرداں اور نہایت بےچین ہیں اور مارے مارے پھرتے ہیں ، ستم ظریفی یہ کہ یہ خود بھی نہیں جانتے  اسکو کہاں اور کیونکر ڈھونڈ پائیں .  آپ سب سے گزارش ہے کہ دعا کریں انہیں جن کی تلاش ہے وہ جلد ملے تا کہ زندگی کے ان کھلے راز ان پر فشاں ہوں اور یہ ہم سب کو دیگ کھلا یں
اپنے من کی دنیا آباد کر اس سے دنیا کو شاد کر

Sunday, January 2, 2011

نہ ھونا عین ھونا ہے - یوں ہوتا، تو کیا ہوتا


نہ ھونا عین ھونا ہے

بعض واقعات انسانی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں
ہم انھیں چاہتے ہوے بھی نہیں بھلا سکتے


ان کا مقصد صرف بندے کو تجربات اور مشاہدات سے گزارنا ہی نہیں بلکہ تربیت بھی مقصود ہوتا ہے
ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پوہنچ پاتے اور ساری زندگی ان واقعات کے اثر میں گزار دیتے ہیں

ہم آج بھی اپنے ماضی پر نگاہ ڈالیں تو بہت سارے تجربات، مشاہدات، اور واقعات بظاھر بےمقصد محسوس ہوتے ہیں، مگر ان میں ایک تسلسل ہے جس کا ادراک آھستہ آھستہ انسان کو سیدھے راستے کی طرف لےجانےکی صورت میں ہوتا ہے


گرچہ تو زنداني اسباب ہے
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں
عشق پر اعمال کي بنياد رکھ

اے مسلماں! ہر گھڑي پيش نظر
آيہ 'لا يخلف الميعاد' رکھ

يہ 'لسان العصر' کا پيغام ہے
''ان وعد اللہ حق'' ياد رکھ''


Though you are bound by cause and effect
Keep your heart a little independent

یوں ہوتا، تو کیا ہوتا

آج ماما کہ رہیں تھیں تم اس نہیں کھیل سکو گی
لیکن وہ تو میری بیسٹ کزن اور فرینڈ ہے
اللہ میاں مجھے تو ڈر لگ رہا ہے
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا

...

صبح سے ماما اٹھی ہوئی ہیں ، بابا بھی نہیں سوے
پتہ نہیں کیوں مجھے بھی نیند نہیں آ رہی
ماما کی گود میں بھی نہیں سو سکی
نجانے کیوں میں خوف زدہ کیوں ہوں
آپا اور بھیا بھی نہیں کھیل رہے

...

وہ جب بھی ہمارے گھر آتی تھی ہم گھنٹوں اس سے کھلتے تھے
حلانکہ وہ اکثر لیٹی رہتی یا سوئی رہتی تھی
وہ بہت چھوٹی تھی مجھ سے بھی چوٹی تھی
میری بیسٹ فرینڈ صرف ١٠ ماہ کی تھی

...

ہم ان کے جانے کے بعد بھی اس سے کھیلتے رہتے تھے
وہ تو میری آپا کی بھی فرینڈ تھی اور بھیا کی بھی
ہم ٹویز سے کھیلیں یا بکس پڑھیں ، ہم اسکو بھی ساتھ کھلاتے تھے

...

میں اس سے نہی کھیل سکتی
لیکن میں اس سے کیوں نہیں کھیل سکتی
اللہ، مجھے تو ڈر لگ رہا ہے
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا

...

ہم کراچی جا رہے ہیں
ماما ٹرین ہمارے گھر کیسے آے گی ؟
بھیا کہ رہے ہیں ہم جہاز پر جایئں گے
ماما جہاز ہمارے گھر کیسے آے گا؟
ہم گاڑی میں نہیں جائیں گے؟
میں بہت خوش ہوں ، ہم جہاز میں کراچی جا رہے ہیں
کیا میں وہاں اس سے کھیل سکون گی ؟

...

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس، تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے، تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا، تو کیا ہوتا


یوں ہوتا، تو کیا ہوتا - ٢

نہیں بیٹا ! جب اللہ کسی کو اپنے پاس بلاتا ہے تو وہ واپس نہیں آتا
ہم اس سے کھیل نہیں سکتے ، مل نہیں سکتے ، باتیں نہیں کرسکتے
وہ ہمیشہ اللہ کے پاس ہی رہتا ہے ، وہ واپس نہیں آسکتا
ہم سب نے وہاں اللہ کے پاس چلے جانا ہے

...

اگر

اگر سردی نہ ہوتی

اگر ٹھنڈ نہ لگتی

اگر بخار نہ ہوتا

اگر الٹی نہ آتی

اگر وہ بچی کو نہ اٹھاتی

اگر پاوں الٹی پر نہ آتا

اگر وہ نہ پھسلتی

اگر وہ نہ گرتی

اگر وہ آہستہ گرتی

اگر سر نیچے نہ لگتا

اگر سر پر چوٹ نہ لگتی

اگر ہسپتال قریب ہوتا

اگر وہاں سی-ٹی سکین ہوتا

اگر سی-ٹی سکین ٹھیک آتا

اگر ہیر لائن نہ آتا

اگر بلڈ کلوٹ نہ بنتا

اگر وہ وقت نہ آتا

اگر وہ بول سکتی

اگر وہ کہ سکتی

اگر وہ بتا سکتی کہ وہ کتنی تکلیف میں تھی

اگر ... اگر

اگر وہ کچھ دن اور رہ جاتی



کسی کو کوئی ملال نہ رہتا
کسی کو کوئی پشیمانی نہ رہتی
کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہ رہتا
اور تم بھی اس سے کھیل سکتی


...

اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اوررلاتا ہے

اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے

اور یہ کہ اسی نے جوڑا نر اور مادہ کا پیدا کیا ہے

ایک بوند سے جب کہ وہ ٹپکائی جائے

اور یہ کہ دوسری بارزندہ کر کے اٹھانا اسی کے ذمہ ہے

...



Thursday, November 7, 2002

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

لگتا نہیں ہے جی مِرا اُجڑے دیار میں

کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں



بُلبُل کو پاسباں سے نہ صیاد سے گلہ

قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں



اِن حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں



اِک شاخِ گل پہ بیٹھ کے بُلبُل ہے شادماں

کانٹے بِچھا دیتے ہیں دلِ لالہ زار میں



عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دِن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو اِنتظار میں



دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہوگئی

پھیلا کے پائوں سوئیں گے کنج مزار میں



کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے

 دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں