جناب شیخ سعدی علیہ رحمۃ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو
دیکھا، اس کی پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی تو شیخ سعدی نے
کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے
یہ بندھی ہوئی ہے۔
اس پر اس جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ وہ اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا، پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔
ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔
اس پر اس جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ وہ اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا، پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔
ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment