Showing posts with label Iqbal. Show all posts
Showing posts with label Iqbal. Show all posts

Sunday, January 2, 2011

نہ ھونا عین ھونا ہے - یوں ہوتا، تو کیا ہوتا


نہ ھونا عین ھونا ہے

بعض واقعات انسانی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں
ہم انھیں چاہتے ہوے بھی نہیں بھلا سکتے


ان کا مقصد صرف بندے کو تجربات اور مشاہدات سے گزارنا ہی نہیں بلکہ تربیت بھی مقصود ہوتا ہے
ہم یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو جاتے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پوہنچ پاتے اور ساری زندگی ان واقعات کے اثر میں گزار دیتے ہیں

ہم آج بھی اپنے ماضی پر نگاہ ڈالیں تو بہت سارے تجربات، مشاہدات، اور واقعات بظاھر بےمقصد محسوس ہوتے ہیں، مگر ان میں ایک تسلسل ہے جس کا ادراک آھستہ آھستہ انسان کو سیدھے راستے کی طرف لےجانےکی صورت میں ہوتا ہے


گرچہ تو زنداني اسباب ہے
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ

عقل کو تنقيد سے فرصت نہيں
عشق پر اعمال کي بنياد رکھ

اے مسلماں! ہر گھڑي پيش نظر
آيہ 'لا يخلف الميعاد' رکھ

يہ 'لسان العصر' کا پيغام ہے
''ان وعد اللہ حق'' ياد رکھ''


Though you are bound by cause and effect
Keep your heart a little independent

یوں ہوتا، تو کیا ہوتا

آج ماما کہ رہیں تھیں تم اس نہیں کھیل سکو گی
لیکن وہ تو میری بیسٹ کزن اور فرینڈ ہے
اللہ میاں مجھے تو ڈر لگ رہا ہے
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا

...

صبح سے ماما اٹھی ہوئی ہیں ، بابا بھی نہیں سوے
پتہ نہیں کیوں مجھے بھی نیند نہیں آ رہی
ماما کی گود میں بھی نہیں سو سکی
نجانے کیوں میں خوف زدہ کیوں ہوں
آپا اور بھیا بھی نہیں کھیل رہے

...

وہ جب بھی ہمارے گھر آتی تھی ہم گھنٹوں اس سے کھلتے تھے
حلانکہ وہ اکثر لیٹی رہتی یا سوئی رہتی تھی
وہ بہت چھوٹی تھی مجھ سے بھی چوٹی تھی
میری بیسٹ فرینڈ صرف ١٠ ماہ کی تھی

...

ہم ان کے جانے کے بعد بھی اس سے کھیلتے رہتے تھے
وہ تو میری آپا کی بھی فرینڈ تھی اور بھیا کی بھی
ہم ٹویز سے کھیلیں یا بکس پڑھیں ، ہم اسکو بھی ساتھ کھلاتے تھے

...

میں اس سے نہی کھیل سکتی
لیکن میں اس سے کیوں نہیں کھیل سکتی
اللہ، مجھے تو ڈر لگ رہا ہے
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا
ماما میں نے اس سے کھیلنا تھا

...

ہم کراچی جا رہے ہیں
ماما ٹرین ہمارے گھر کیسے آے گی ؟
بھیا کہ رہے ہیں ہم جہاز پر جایئں گے
ماما جہاز ہمارے گھر کیسے آے گا؟
ہم گاڑی میں نہیں جائیں گے؟
میں بہت خوش ہوں ، ہم جہاز میں کراچی جا رہے ہیں
کیا میں وہاں اس سے کھیل سکون گی ؟

...

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس، تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے، تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا، تو کیا ہوتا


یوں ہوتا، تو کیا ہوتا - ٢

نہیں بیٹا ! جب اللہ کسی کو اپنے پاس بلاتا ہے تو وہ واپس نہیں آتا
ہم اس سے کھیل نہیں سکتے ، مل نہیں سکتے ، باتیں نہیں کرسکتے
وہ ہمیشہ اللہ کے پاس ہی رہتا ہے ، وہ واپس نہیں آسکتا
ہم سب نے وہاں اللہ کے پاس چلے جانا ہے

...

اگر

اگر سردی نہ ہوتی

اگر ٹھنڈ نہ لگتی

اگر بخار نہ ہوتا

اگر الٹی نہ آتی

اگر وہ بچی کو نہ اٹھاتی

اگر پاوں الٹی پر نہ آتا

اگر وہ نہ پھسلتی

اگر وہ نہ گرتی

اگر وہ آہستہ گرتی

اگر سر نیچے نہ لگتا

اگر سر پر چوٹ نہ لگتی

اگر ہسپتال قریب ہوتا

اگر وہاں سی-ٹی سکین ہوتا

اگر سی-ٹی سکین ٹھیک آتا

اگر ہیر لائن نہ آتا

اگر بلڈ کلوٹ نہ بنتا

اگر وہ وقت نہ آتا

اگر وہ بول سکتی

اگر وہ کہ سکتی

اگر وہ بتا سکتی کہ وہ کتنی تکلیف میں تھی

اگر ... اگر

اگر وہ کچھ دن اور رہ جاتی



کسی کو کوئی ملال نہ رہتا
کسی کو کوئی پشیمانی نہ رہتی
کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہ رہتا
اور تم بھی اس سے کھیل سکتی


...

اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اوررلاتا ہے

اور یہ کہ وہی مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے

اور یہ کہ اسی نے جوڑا نر اور مادہ کا پیدا کیا ہے

ایک بوند سے جب کہ وہ ٹپکائی جائے

اور یہ کہ دوسری بارزندہ کر کے اٹھانا اسی کے ذمہ ہے

...



Saturday, October 24, 2009

راهب الماضين أفلاط الحكيم


راهب الماضين أفلاط الحكيم
من فريق الضأن في الدهر القديم

طرفه في ظلمة المعقول ضل
في حزون الكون قد أعيا وكل

فكره في غير محسوس فتن
صد عن كف وعين وأذن

قال في الموت بدا سر الحياه
في خمود الشمع يزداد سناه

حكمه في فكرنا جد عظيم
يمحق الدنيا له جام منيم

هو شاة في لباس الآدمي
وهو في الصوفي ذو بأس قوي

عالم الأشياء سماه الهراء
وعلت أفكاره فوق السماء

فعله تحليل أجزاء الحياه
وجفاف النبع من ماء الحياه

زعم الخسران ربحا فكره
ودعا الكون فناء سحره

فكره يغفى ورؤيا يخلق
عينه تبصر آلا يبرق

حرم المسكين حب العمل
فقفا معدومه لا يأتلى

منكرا في الكون مالا يفقد
خالقا في الكون ما لا يشهد

عالم الإمكان للحي وطن
عالم الأعيان للميت حسن

ظبيه من خفة لا يجفل
غير خطار لديه الحجل

لم يلألئ عنده قطر الندى
طيره ما فيه صوت قد شدا

حبة في أرضه تأبى النماء
وفراش عنده يقلي الضياء

في وغى العالم نكس محجم
مشفق راهبنا لا يقدم

قلبه يعشو لنار خامده
صورت عيناه دنيا هاجده

طار من عش إلى الأوج العلي
ثم لم يرجع إلى العش الخلي

هلك أقوام بهذا الثمل
حرموا بالنوم ذوق العمل